مدتوں میں گھر ہمارے آج یار آ ہی گیا

مدتوں میں گھر ہمارے آج یار آ ہی گیا
ظلم کرتا تھا مگر ظالم کو پیار آ ہی گیا


ہجر کی راتیں کٹیں تارے گنے جاگا کئے
وصل کے لمحے ملے آخر قرار آ ہی گیا


وہم تھے میری طرف سے بد گمانی تھی انہیں
میری فطرت دیکھ کے اب اعتبار آ ہی گیا


میں نے مانا عارضی ہیں وصل کی گھڑیاں مگر
چند لمحوں کے لئے دور بہار آ ہی گیا


ہم کو پینے سے غرض کیا یہ شراب ظاہری
ان کی نظریں جب اٹھیں مجھ کو خمار آ ہی گیا


اے نظامیؔ دفعتاً ان کی نگاہیں اٹھ گئیں
پیار وہ کرتے نہ تھے بے اختیار آ ہی گیا