موٹی ویشنل اسپیکر اور اس کی بیوی

ایک موٹیویشنل اسپیکر نے بیوی کو فون کیا اور کہا:

"کسی نے میری گاڑی کا اسٹیئرنگ، بریکیں، ایکسیلیٹر، گیئر سب چوری کر لیا ہے۔ مطلب اس دنیا کو کیسے سدھارا جائے۔ ظاہر ہے میں پولیس میں رپورٹ تو لکھواؤں گا لیکن مجھے بطور ایک درمند انسان سارے پہلو پہ غور بھی کرنا ہے کہ اس رویے کہ پیچھے کیا کیا محرکات ہیں۔ کیا بے روزگاری ہے یا تربیت کی کمی، ڈپریشن یا پھر کوئی نفسیاتی مسائل۔ مجھے اس پہ بات کرنا  ہو گی کہ آخر  لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ مجھے اس پہ بات کرنی ہوگی کہ لوگ ایسا کرنا کس طرح چھوڑ سکتے ہیں۔ کیا اسباب ہیں جن کی وجہ سے ایسے واقعات ہمارے معاشرے میں رونما ہوتے ہیں۔ اس چوری کو دیکھ کر میرے ذہن میں ایک چھوٹا بچہ آرہا ہے جس کا بچپن محرومی میں گزرا۔ جس نے شاید پہلی چوری محلے کی ایک دکان سے ٹافی چوری کر  کے  کی۔ اسے اس وقت کوئی ہاتھ پکڑ کر روکنے والا نہیں تھا۔ اب مجھے یہ نفسیاتی گرہیں کھولنی ہوں گی۔ لوگوں کو بتانا ہوگا کہ وہ کس طرح بہتر انسان بن سکتے ہیں۔"

بیوی نے کمال صبر اور متانت سے جواب دیا : "ہو گیا؟ بول  چکے؟ اب میری بات غور سے سنو۔ مجھے لگتا ہے کہ شاید تم پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے ہو۔"

ایک منٹ کے لیے مکمل سناٹا چھا گیا۔ اس کے بعد موٹیویشنل اسپیکر کی انتہائی دھیمی آواز آئی:

" تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ میں پچھلی سیٹ پر ہی بیٹھا ہوں"

بیوی ہنستے ہوئے بولی : "آتے آتے چھ انڈے، ایک ڈبل روٹی، ایک لیٹر دودھ، ایک پاؤ  دہی اور  ایک گڈی ہرے دھنیے کی لیتے آنا۔ اور ہاں ، دھنیا  خریدنے سے پہلے ایک بار سونگھ ضرور  لینا۔ پچھلی بار بھی پارسلے اٹھا لائے تھے"