محبت میں خوشی بھی کہکشاں معلوم ہوتی ہے

محبت میں خوشی بھی کہکشاں معلوم ہوتی ہے
یہ ہستی اب ہمیں لطف جہاں معلوم ہوتی ہے


ہے گزری کیا سے کیا عشق و محبت کے تناظر میں
محبت خارج از سود و زیاں معلوم ہوتی ہے


ہم اس دنیا میں رہ کر آخرت کی بات کرتے ہیں
ہمیں تو یہ زمیں اب آسماں معلوم ہوتی ہے


یہ ہے اب شاعری مجذوب کی سن لو ذرا یارو
فقیری بھی نشان امتحاں معلوم ہوتی


ہے ان کا معجزہ یہ رحمۃ اللعالمیں ہونا
یہ دنیا رونق کون و مکاں معلوم ہوتی ہے


تلاطم خیز دریا اور یہ ساحل سے نظارہ
ہر اک موج تلاطم بے کراں معلوم ہوتی ہے


خدا نے عظمت انسانیت بخشی انہیں اے شادؔ
تصوف میں خودی اب شادماں معلوم ہوتی ہے