مریخ پر پانی کے شواہد

سائنس دانوں نے حال ہی میں دریافت کیا ہے کہ مریخ کے ایک خطے میں پانی کبھی موجود ہوتا تھا۔ اس خطے کو    عریبیا ٹیرا   کا نام دیا  گیا ہے۔

نارتھ ایریزونا یونیورسٹی اور جانس ہاپکنز یونیورسٹی کی ایک ٹیم کے  ایک رکن ایری کوپل نے حال ہی میں دریافت کیا کہ پانی کبھی مریخ کے ایک  خطے میں موجود تھا جسے عریبیا ٹیرا کہتے ہیں۔ عریبیا ٹیرا مریخ کے شمالی عرض بلد میں ہے۔ اس خطے کو یہ نام اطالوی ماہر فلکیات Giovanni Schiaparelli کی طرف سے 1879 میں  دیا گیا تھا۔  یہ قدیم خطہ یورپ سے قدرے بڑے  رقبے پر محیط ہے۔  عریبیا ٹیرا میں گڑھے، آتش فشاں ،  وادیاں اور   ایسی  خوبصورت چٹانیں ہیں جو پینٹ شدہ صحرا یا بیڈ لینڈز یعنی  میں  سیڈیمنٹری راکس کی تہوں کی طرح لگتی ہیں۔

چٹانوں کی یہ پرتیں اور ان کی تشکیل، کوپل اور اس کے ساتھیوں کا زیر مطالعہ موضوع تھا۔   ان کا تحقیقی مقالہ

 "A fragile record of fleeting water on Mars," 

کے عنوان سے جیولوجی نامی جریدے میں شائع ہوا۔  ان کی تحقیق ناسا نے فنڈ کی۔

تحقیق  کرنے والے نمایا ں محقق کوپل نے اپنی تحقیق کے بارے میں بات کرتے  ہوئے کہا: "ہم اپنی تحقیق میں اس بات میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے کہ   چٹانوں کے ذریعے مریخ کی  سطح کو کھوجا جائے کہ آج سے تین سے چار ارب سال قبل   اس کی سطح پر ماحول کیا تھا اور کیا وہ ماحول کسی زندگی کی بقا کے موافق تھا یا نہیں۔  ہم اس میں دلچسپی رکھتے تھے کہ کیا  پانی وہاں مستحکم تھا، کتنے عرصے تک مستحکم پانی رہا  تھا، نیز وہاں کا ماحول کیسا رہا ہوگا اور سطح کا درجہ حرارت کیسا رہا ہوگا۔"

اس بات کا تعین کرنے کے لیے کہ چٹان کی تہوں کو  بنانے میں کن عوامل نے کردار  ادا کیا ، سائنس دانوں نے تھرمل  انرشیا پر  توجہ مرکوز کی، جو مواد کی درجہ حرارت کو تبدیل کرنے کی صلاحیت کی وضاحت کرتا ہے۔

ایڈورڈز نے کہا کہ "کسی نے بھی ان واقعی دلچسپ ذخائر کی گہرائی سے تھرمل  انرشیا کی تحقیقات نہیں کیں جو مریخ کی سطح کے ایک بڑے حصے کا احاطہ کرتے ہیں۔"

 تحقیق مکمل کرنے کے لیے، کوپیل نے مدار میں گردش کرنے والے سیٹلائٹس پر ریموٹ سینسنگ آلات کا استعمال بھی کیا۔  بالکل ماہرین ارضیات کی طرح۔ کوپیل نےکہا: "ہم بھی   ماہرین ارضیات کی طرح چٹانوں کو دیکھتے ہوئے ماضی کے ماحول کی کہانی بنانے کی کوشش کرتے رہے۔ لیکن ہم زمین کی طرح مریخ پر سیمپل لینے نہیں جا  سکتے۔  ہمیں مریخی   سیٹلائٹ ڈیٹا پر بیش تر  انحصار  کرنا پڑتا  ہے۔   مریخ کے گرد چکر لگانے والے مٹھی بھر سیٹ لائٹس ہیں،  (ان سیٹ لائٹس سے ہمیں خاصا ڈیٹا مل جاتا ہے) اور ہر ایک سیٹ لائٹ مختلف آلات  کا مجموعہ رکھتا ہے۔ ہر آلہ سطح پر موجود چٹانوں کی وضاحت کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔"

دور دراز سے جمع کیے گئے اس ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے تحقیقات کی ایک سیریز کے ذریعے، انھوں نے تھرمل  انرشیا ، نیز کٹاؤ کے شواہد، گڑھوں کی حالت اور وہاں کون سے معدنیات موجود تھے، اس سب کو جاننے کی کوشش کی۔

        تحقیق کے بعد کوپل اور اس کے ساتھیوں کا خیال ہے کہ  مریخ کے اس خطے پر پانی  تھوڑے ہی عرصے کے لیے رہا ہوگا۔ یہ بات ان لوگوں کے لیے خاصی مایوس کن ہوگی جو مریخ پر لمبے عرصے تک پانی کی موجودگی کو بنیاد بنا  کر وہاں زندگی کے آثار ڈھونڈنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ لیکن اس تحقیق میں سامنے آنے والے حقائق، یعنی پانی وہاں قلیل مدت تک ہی رہا، نے نئے سوالات کے انبار لگا  دیے ہیں۔  مثال کے طور پر: وہ کون سی  وجوہات ہیں جن کی وجہ سے پانی وہاں صرف کچھ مدت تک ہی موجود رہ سکا؟ کیا ایسے گلیشیئر زہوسکتے ہیں جو بڑے سیلاب کی آمد پر تیزی سے پگھل جاتے ہیں؟ کیا پانی کا کوئی ایسا نظام ہو سکتا تھا جو   صرف ایک مختصر مدت کے لیے باہر نکل کر نیچے ڈوب جائے؟ "

مترجم: فرقان احمد