مرے لہو کو مرے زخم کی دوا کہیے

مرے لہو کو مرے زخم کی دوا کہیے
جلے مکاں کے دھویں کو ہی اب صبا کہیے


بلکتے شہر کی گلیوں سے اگنے والی سحر
سحر نہیں ہے اسے رات کی قضا کہیے


لہو رلاتی رہی جو وفا کی تعبیریں
وفا نہ کہیے اسے اب اسے جفا کہیے


بڑھے گا ظلم تو اٹھ جائے گا لحاظ و ادب
ہمارا ہاتھ جو اٹھا تو مقتضا کہیے


سبھی نے صبر کی تلقین کی ہمیں لیکن
چھلک بھی جائے یہ ساغر کبھی تو کیا کہیے