ملتی ہے مجھ کو لذت اس یاد کی چبھن سے
ملتی ہے مجھ کو لذت اس یاد کی چبھن سے
غربت میں آئے جیسے اپنا کوئی وطن سے
گزرا ہے شوخ کوئی لہرا کے صحن دل سے
اک بھینی بھینی خوشبو جاتی نہیں بدن سے
دنیا کی ٹھوکروں میں رکھا گیا ہے جس کو
آتی ہے اس کی خوشبو پھولوں کے پیرہن سے
کیاری میں خون ڈالا پودا لگایا جس نے
وہ ہی نکل گیا ہے کاشانۂ چمن سے
جب ہم نے بات چھیڑی محفل ہوئی چراغاں
ہر شے نے داد مانگی زخموں کی انجمن سے
محفل میں آ گئے ہیں اور سرخ رو بھی ہوں گے
اعزاز بھی ملے گا بانوؔ کو حسن ظن سے