مڈل کلاسی

ہمارا معاشرہ امیر اور غریب میں ایسے تقسیم ہے جیسے انسانیت مردوں اور عورتوں میں۔ یعنی جو مرد نہیں وہ عورت ہے اور جو عورت نہیں وہ مرد ہے۔ باقی جو ان دونوں میں سے نہیں وہ متوسد طبقہ ہے۔  انگریزی میں اسے مڈل کلاس کہتے ہیں۔ چال تو اسکی امیروں والی ہوتی ہے لیکن اوقات غریبوں والی بھی نہیں۔ لہٰذا پورے معاشرے میں پٹنا اسکا مقدر ٹھہرتا ہے۔

امیر متوسد طبقے کو غریب سمجھتا ہے اور غریب امیر۔  لیکن بیچارہ یہ طبقہ خود کچھ سمجھ ہی نہیں پاتا۔ تب ہی تو کبھی بھرم رکھنے کی خاطر امیر بننے کی کوشش کرتا ہے اور کبھی کفایت شعاری، صادگی اور عاجزی کے نام پر غریب۔ پریشان رہنا اس طبقے کا عام معمول ہے۔ بجلی کا بل زیادہ آ جاۓ تو پریشان، رشتہ دار بیمار ہو جاۓ تو پریشان، گھر پر مہمان آ جا ئیں تو پریشان، مہنگائ بڑھ جاۓ تو پریشان، بجلی چلی جاۓ تو پریشان اور نہ جاۓ تو بھی پریشان۔ حتٰی کہ اگر کوئ پریشانی نہ آۓ تو بھی پریشان ہو جاتا ہے کہ کوئ پریشانی نہیں آئ۔ لگتا ہے رب تعالیٰ ناراض ہے۔ زیادہ تر فلسفی، دانشور، ادیب اور علما وغیرہ بھی اسی متوسد طبقے سےہوتے ہیں۔ اور ان کا فلسفہ ہو یا نصیحت  ، چلتی بس اسی طبقے پر ہے۔ کیونکہ امیر اسے سمجھنا نہیں چاہتا اور غریب سمجھ نہیں پاتا۔  

    عرف عام میں امیر طبقے کو معاشرے کی بالائ کہتے ہیں اور غریب کو کھرچن۔ متوسد طبقہ امیر کو دیکھتا ہے تو رشک کرتا ہے اور غریب کو دیکھتا ہے تو ترسکھاتا ہے۔  لہٰذا ہر ماہ کی پہلی کو وہ  امیروں والے شوق پورے کرنے کا ارادہ کرتا ہے لیکن ہر یکم پر اس کی تنخواہ سے کام کرنے والی ماسی کو تو نیا جوڑا مل جاتا ہے لیکن اسکے اپنے شوق اگلی یکم تک ملتوی۔ اور اس یکم آنے کی آس ایسی ہی ہے جیسے  رات شازیہ، نازیہ یا سلمہ کے میسج پر کرواۓ لوڈ کے واپس آنے کی۔  سب سے زیادہ خواب بھی یہی طبقہ دیکھتا ہے۔ آپ اگر کبھی سنیں کہ فلاں شخص سوۓ سوۓ پلنگ سے گر گیا تو فورا سمجھ جائیں کہ اسکا تعلق متوسد طبقے سے ہے۔ خواب میں قوقاف کی پریوں کے ساتھ اڑن تشتری میں اڑا اور حقیقت میں پلنگ سے نیچے۔ بس اسی خواب اور حقیقت کی کشمکش متوسد طبقے کی زندگی ہے۔


    متوسد طبقے کا آدمی امیر اور غریب دونوں کو دکھاۓکا وہ امیر ہے۔ کیونکہ امیر کے سامنے اپنا بھرم رکھنا ہے اور غریب کے آگے عزت۔ لیکن اپنے ساتھ کے مڈل کلاسیے کے سامنے وہ اپنی مفلسی کے ایسے قزیے سناۓ گا کہ اللہ کی پناہ۔۔ کیونکہ اسے پتہ ہوتا ہے کہ ادھر نہ تو بھرم ہو گا اور نہ ہی عزت۔  ادھر صرف قرض کا مطابہ ہی ہو گا۔  قرض اگر اسے دے دیا تو خود کیا کرے گا۔ اگر کبھی کوئ شخص قیمتی چیز دیکھ کر ٹھنڈی آہ بھرتا آۓ تو سمجھ جائیں کہ بندہ متوسد طبقے سے ہے، یعنی مڈل کلاسیہ ہے۔ کیونکہ امیر اسے خرید لے گا اور غریب اسے مانگ لے گا۔ اور مڈل کلاسیہ!۔۔۔ مڈل کلاسیہ ان دونوں کاموں میں سے کوئ کام نہیں کر پاۓ گا۔ خریدنے کی اس میں بساط نہیں ہوتی اور مانگنے کی ہمت۔


    مڈل کلاسیے کے پاس اور کچھ ہو نہ ہو سوکھی عنیٰ سے اکڑائ ناک ضرور ہوتی ہے۔ اور سوکھی عنیٰ سوکھے رس کی طرح ہوتی ہے جو بغیر چاۓ کے کھانے پر پھندہ  لگانے کے سوا کچھ نہیں کرتا۔ مڈل کلاسیہ اسی عنیٰ یا بھرم کی وجہ سے اچھا کھانا کھانے نہیں بلکہ کھلانے پر یقین رکھتا ہے۔ تب ہی تو اس کے ہاں مرغ مسلم اسی وقت بنتا ہے جب مہمان آتے ہیں۔  اچھے برتن بھی اسی وقت نکلتے ہیں اور اے سی بھی اسی وقت ہی چلتا ہے۔


    متوسد طبقہ لیمو نچوڑ کے اندر لیمو کی طرح ہوتا ہے۔ اوپر سے امیر دباتا ہے اور نیچے سے غریب۔ زیادہ تر اسکا رس امیر پی جاتا ہے اور بچہ کھچا غریب۔ خود بیچارہ ساری زندگی یہ سمجھتا رہتا ہے کہ ایک دن وہ لیمو سے کینو بنے گا۔ اور پھر لیمو نچوڑ کی گرفت سے نکل جاۓ گا۔ حالانکہ بیچارے کو سمجھ ہی نہیں آ پاتی کہ لیمو کبھی کینو نہیں بنتا۔ اگر وہ لیمو نچوڑ سے بچنا چاہتا ہے تو اسے خود اس معاشرے میں لیمو نچوڑ بننا پڑے گا۔  لیکن اگر اسے یہ بات سمجھ آ بھی جاۓ تو بھی وہ لیمو نچوڑ نہیں بن پاتا۔ کیونکہ اللہ کا خوف، دل میں رحم اور اخلاقیات کے تمام اصول بھی اسے ہی سب سے زیادہ معنے ہوتے ہیں۔


    سیاست کے میدان الیکشن ہو یا سلیکشن، ووٹ سب سے زیادہ یہی طبقہ ڈالتا ہے۔ کیونکہ غریب کو پتہ ہوتا ہے کہ حکومت جو مرضی ہو، انہوں نے ایسے ہی رہنا ہے۔  اسی طرح امیروں کو بھی پتہ ہوتا ہے کی حکومت کسی کی بھی ہو، حکمرانی انہی کی ہے۔  یہ انقلاب ونقلاب، تبدیلیاں شبدیلیاں انہی مڈل کلاسیوں کو نظر آتی ہیں۔ بعد میں کہتے پھرتے ہیں کہ ہمیں تو حقیقی جمہوریت ہی نہیں ملی۔  بحر حال کچھ بھی ہے، متوسد طبقہ سائیکل کے پیڈل کی طرح ہوتا ہے۔  یہ گھومتا ہے تو معاشرہ چلتا ہے۔