میری جدائیوں سے وہ مل کر نہیں گیا
میری جدائیوں سے وہ مل کر نہیں گیا
اس کے بغیر میں بھی کوئی مر نہیں گیا
دنیا میں گھوم پھر کے بھی ایسے لگا مجھے
جیسے میں اپنی ذات سے باہر نہیں گیا
کیا خوب ہیں ہماری ترقی پسندیاں
زینے بنا لیے کوئی اوپر نہیں گیا
جغرافیے نے کاٹ دیے راستے مرے
تاریخ کو گلہ ہے کہ میں گھر نہیں گیا
ایسی کوئی عجیب عمارت تھی زندگی
باہر سے جھانکتا رہا اندر نہیں گیا
ڈالا نہ دوستوں کو کبھی امتحان میں
صحرا میں میرے ساتھ سمندر نہیں گیا
اس وقت تک سلگتی رہی اس کی آرزو
جب تک دھوئیں سے سارا بدن بھر نہیں گیا
ذلت کے بھاؤ بک گئیں عزت مآبیاں
دستار اس کی جاتی رہی سر نہیں گیا
خواہش ہوس کے روپ میں اچھی نہیں لگی
دنیا کو فتح کر کے سکندر نہیں گیا
کاندھوں پہ اپنے لوگ اسے لے گئے کہاں
پیروں سے اپنے چل کے مظفرؔ نہیں گیا