میرے سر سے کیا غرض سرکار کو

میرے سر سے کیا غرض سرکار کو
دیکھیے اپنے در و دیوار کو


یہ گھٹا ایسی گھٹا اتنی گھٹا
مے حلال ایسے میں ہے مے خوار کو


دھمکیاں دیتے ہو کیا تلوار کی
ہم لگاتے ہیں گلے تلوار کو


اپنی اپنی سب دکھاتے ہیں بہار
گل بھی گلشن سے چلے بازار کو


طاق سے مینا اتار آئی بہار
طاق پر رکھ شیخ استغفار کو


ڈھونڈھتا پھرتا ہے کوئے غیر میں
دل مبارکؔ کو مبارکؔ یار کو