معراج ارتقا ہے تماشا نہ جانیے

معراج ارتقا ہے تماشا نہ جانیے
تہذیب عصر نو کو برہنہ نہ جانیے


ابھرا بہت پہ لوح سماعت سے دور دور
حرف صدا کو اب کے کہیں کا نہ جانیے


ہونے کو اس سفر میں بہت رائیگاں ہوئے
لیکن ہمیں شکست کا نوحہ نہ جانیے


بس اپنی ہا و ہو سے ہی رونق ہے چار سو
ویرانیوں کو زینت صحرا نہ جانیے


طوفاں کا نام سن کے لرزتی تو ہے مگر
دیوار جسم و جاں کو شکستہ نہ جانیے