مضمون عشق ذہن ستم گر میں آ گیا

مضمون عشق ذہن ستم گر میں آ گیا
دریا سمٹ کے حلقۂ ساغر میں آ گیا


ہنگام ذبح جسم نے گستاخیاں جو کیں
دھبا لہو کا دامن خنجر میں آ گیا


آ نکلے تیرے سامنے کیا پوچھتا ہے یار
کچھ اس گھڑی یہی دل مضطر میں آ گیا


اس سرو قد کے قامت موزوں کو دیکھ کر
خم اے شگفتہؔ نخل صنوبر میں آ گیا