موجود ہیں کتنے ہی تجھ سے بھی حسیں کر کے

موجود ہیں کتنے ہی تجھ سے بھی حسیں کر کے
جھٹلا دیا آنکھوں کو میں دل پہ یقیں کر کے


جس چشم سے رندوں میں ہو حق ہے اسی نے تو
زاہد کو بھی رکھا ہے محراب نشیں کر کے


کیا اس کی لطافت کا احوال بیاں کیجیے
جو دل پہ ہوا ظاہر آنکھوں کو نہیں کر کے


کچھ کم تھا بلائے جاں پہ چہرہ کہ اوپر سے
آنکھیں بھی بنا لائے غارت گر دیں کر کے


آئینے کے آگے سے اب اٹھ بھی چکو صاحب
کیا کیجئے گا خود کو اتنا بھی حسیں کر کے


سو داغ ہیں سینے میں وہ داغ جدائی بھی
دیکھو تو ذرا ہوگا ان میں ہی کہیں کر کے


اس دل کا تو نقشہ ہی دنیا نے بدل ڈالا
کچھ یاد ہے رہتا تھا وہ بھی تو یہیں کر کے


جاویدؔ وہاں تک تو مشکل ہے کوئی پہنچے
منگوایئے قاصد بھی جبریل امیں کر کے