ماتم شہرِ آرزو

صمد خاں کی آنکھوں کے سامنے بجلی سی لہرائی۔
انہوں نے کھڑکی میں سے دیکھا۔ وہ پھر سامنے سے گزر رہی تھی ویسی ہی مست خرام، اپنے آس پاس سے بے نیاز، جیسے پوری دنیا کو روندتی ہوئی۔
زندگی کی پچپن بہاریں دیکھ چکنے والے صمد خاں کی ساری حسّیں بیدار ہو گئیں۔ ایک ٹھنڈی اور بوجھل آہ بھرتے ہوئے انہوں نے خود ہی اپنی حالت زار پر افسوس کیا۔ اپنی بے بسی پر خود کو لعن طعن کرتے ہوئے وہ جسم کے روئیں روئیں میں بجلیاں بھری ہوئی محسوس کررہے تھے۔ بالکل ویسے ہی جیسے تیس پینتیس برس پہلے اپنے عنفوان شباب میں کسی حسین چہرے، کسی گدرائے ہوئے جسم، کسی نشیلی چال یا کسی کی مدھر بھری آنکھ کو دیکھ کر تشنج اور نشے کی ملی جلی کیفیت ان پر طاری ہو جایا کرتی تھی۔
مگر وہ تو چڑھتی ہوئی جوانی کے دن تھے۔ یہ آج پچپن برس کی عمر میں مجھے کیا ہو گیا ہے۔ انہوں نے اپنے آپ سے سوال کیا مگر اس کا جواب ان کے پاس موجود نہیں تھا۔
خان صمد خاں بڑے وجیہہ انسان تھے، سرخ و سفید رنگ، چھریرا بدن، لمبا قد اور تیکھے نقوش کے مالک ہزاروں افراد میں پہچانے جاسکتے تھے۔ ان کی وطن واپسی بیس برس بعد ہوئی تھی۔ یہاں وہ ایک بڑے شہر کے نزدیک واقع قصبے میں چوراہے پر واقع اپنے ایک دوست کے مکان کی بالائی منزل میں رہائش پذیر تھے۔ ان کا یہ دورہ ان کے کام کے سلسلے میں تھا۔بیس برس سے وہ ایک عالمی ادارے کے ساتھ منسلک تھے جس کا کام تیسری دنیا کے ملکوں کے سیاسی، سماجی اور تہذیبی مسائل کے بارے میں کوائف جمع کرنا تھا۔ صمد خان نے تیسری دنیا کے ملکوں میں بڑھتی ہوئی شہری آبادیوں سے پیدا ہونے والے مسائل پرایک تھیسس لکھا تھا۔ اس کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ جن ملکوں کے مسائل سے متعلق انہوں نے یہ جائزہ تیار کیا ہے انہی میں سے کسی میں جا کر وہ کم از کم تین ماہ قیام کریں اور اس مدت کے خاتمے پر ایک باب کا اضافہ کرکے یہ تھیسس متعلقہ اداروں کے حوالے کریں، چونکہ اس میں دیہات سے شہروں میں منتقل ہونے والے افراد کی روز افزوں تعداد اس طرح پیدا ہونے والے مسائل کا زیادہ ذکر تھا اس لیے انہوں نے اپنے ہی وطن واپس آکر ایک بڑے شہر کے قریب واقع گاؤں میں تین ماہ کے لیے قیام کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
بیس برس قبل وہ جن حالات میں ملک چھوڑ کر گئے تھے ان میں ان کا واپس آنے کا ہرگز کوئی ارادہ نہ تھا۔ ان کا تعلق ایک چھوٹے موٹے زمیندار گھرانے سے تھا۔ ان کا بچپن گاؤں میں گزرا۔ شہر کے اچھے تعلیمی اداروں میں پڑھنے کے دوران میں اور اس کے بعد بھی گاؤں سے ان کا تعلق بہت مضبوط رہا ۔ مزاجاً اور طبعاً وہ ملک کے دیہی ماحول کا حصہ رہے۔ گاؤں کی کھلی فضا میں اڑتے ہوئے پرندوں، شیشم اور سوسن کے درختوں، سرکنڈے کی لہلہاتی جھاڑیوں، دھان کی گہری سبز بالیوں ، زمستانی ہواؤں میں چاندنی راتوں میں پھیلے ہوئے سرسوں کے کھیت کو صمد خاں نے شعوری طور پر شاید کبھی اپنی زندگی کا حصہ نہیں مانا تھا، مگر یہ ساری چیزیں ان کے وجود میں رس بس گئی تھیں۔ ایسے رشتے انسان سوچ کر قائم نہیں کرتا، وہخود بخود قائم ہو جاتے ہیں اور زندگی اور مزاج کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ جوانی کی سرحدوں میں داخل ہونے کے بعد صمد خاں کے اردگرد پھیلی ہوئی یہ سحر آگیں فضا گویا مجسم ہو کر زندہ جسموں میں ڈھل گئی تھی۔ انہیں اپنے آس پاس کی ہنستی کھیلتی گاتی کنگناتی جوانیوں نے اپنی طرف کھنیچ لیا۔ عنفوان شباب کی سرمستی میں وہ برسوں یہ ازلی کھیل کھیلتے رہے۔ یہ اس ماحول اور اس میں پلنے والے حقوق یافتہ طبقے کے متعلق خاندانوں کے لیے معمول کی بات تھی جن کے مردوں کی جھولیوں میں الھڑ جوانیاں از خود گر جاتی تھیں۔
شادی کے بعد ان کی جولانیوں میں ٹھہراؤ آگیا۔ان کی بیوی خوش قامت اور حیرت انگیز تیکھے نقوش کی ایک خوبصورت اور دل لبھانے والی عورت تھی اور وہ اسی فضا کا حصہ تھی جس میں صمد خاں کی تربیت ہوئی تھی۔ عورت کا جو تصور ان کے ذہن میں جوانی کے ابتدائی دنوں میں نقش ہو گیا تھا اور جس سے وہ عمر بھر نجات حاصل نہیں کر سکے ان کی بیوی اسی کا ایک خوبصورت تراشیدہ نمونہ تھی۔ انہوں نے خاندانی روایات کے برعکس بیوی سے عشق کیا اور اس کی مسحورکن شخصیت کے طلسم کے اسیر ہو گئے۔ انہیں اس کے گداز جسم سے سرسوں کے پھولوں، نیشکر اور دھان کے پودوں کی مہک آتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔وہ پاس ہوتی تو صمد خاں کے ذہن میں گلاب کھل اٹھتے۔ سرسوں پھول جاتی، شیشم کی ٹہنیاں جھک جاتیں اور ساری فضاملی جلی خوشبوؤں سے معطر ہو جاتی۔ فاطمہ ایک بھر پور اور مکمل عورت تھی، ایسی عورت جو اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی فضا، ، زمین آسمان چاند ستاروں سبھی کو پس پشت ڈال دیتی ہے، جس کے وجود کے سامنے میلوں پھیلے ہوئے ساحل سمٹ جاتے ہیں اور جو مجرد حقیقت کی شکل میں ہر جگہ اور ہر محفل کے پیش منظر میں رہتی ہے۔
صمد خاں نے خوشیوں بھرے یہ دن زیادہ دیر نہیں چلے، قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ فاطمہ ایسی بیماری میں مبتلا ہو گئی جس کا ان دنوں کوئی علاج نہیں تھا۔ دو تین ماہ بیمار رہنے کے بعد شادی کے ٹھیک تین برس بعد صمد خاں کو داغ مفارقت دے گئی۔ بیوی کی موت کے تقریباً دو برس بعد تک وہ وطن میں ہی رہے، بچہ کوئی نہیں تھا اس لیے خاندان والوں نے دوسری شادی کی بہت کوششیں کیں۔ بہت رشتے آئے، بڑی بڑی خوبصورت خواتین کی تصاویر انہیں دکھائی گئیں مگر ان کے اندر شاید سبھی کچھ ختم ہو گیا تھا۔ انہوں نے دوسری شادی قبول نہیں کی، پڑھنے لکھنے کے وہ پہلے سے عادی تھے، اب زیادہ توجہ اسی طرف دینے لگے۔
ان کی زندگی بظاہر بے مقصد تھی۔ وہ بھری دنیا میں تنہا ہو گئے۔ ان کے آس پاس پھیلی ہوئی بھری پری دنیا ان کے لیے بے معنی ہو گئی، اس زمانے میں کتابیں ہی ان کی رفیق تھیں، کبھی کبھار محض وقت گزاری کے لیے انہوں نے اپنے ملک یا اس خطے کے بارے میں اخباری مضامین بھی لکھے، مگر زندہ رہنے اور اس جہان رنگ و بو سے حظ اٹھانے کی اہلیت سے وہ گویا محروم ہو چکے تھے۔ ایسے وقت میں ان کے اخباری مضامین کی وجہ سے ایک عالمی ادارے کی طرف سے انہیں کچھ تحقیقاتی کام کرنے کی پیش کش ہوئی تو انہوں نے اسے بلا تامل قبول کرلیا اور وطن چھوڑ کر یورپ چلے گئے۔ پیرس اس ادارے کا ہیڈ کوارٹر تھا اس لیے اپنے بیس برس کے اس قیام کا زیادہ حصہ انہوں نے پیرس ہی میں گزارا۔ اس طویل مدت میں البتہ وہ وقتاًفوقتاً سیرو تفریح کے لیے فرانس سے باہر بھی گئے۔ انہوں نے یورپ کے سبھی صنم کدوں کی روشنیاں دیکھیں، متعدد بار امریکہ بھی گئے۔ یورپ اور امریکہ کی کھلی زندگی کے سحر نے انہیں اپنی گرفت میں ضرور لیا، مگر ان کے اندر کا مرد ان سے بے نیاز ہی رہا، خود ان کے اپنے دفتر میں فرانسیسی خواتین کی ایک پوری کھیپ موجود تھی جن کی اکثریت کو کسی بھی معیار حسن کے حوالے سے خوب صورت، جاذب نظر اور پر کشش قرار دیا جا سکتا ہے، ان میں سے کچھ فرانسیسی تہذیبی روایات کا قابل قدر نمونہ تھیں۔جو مہذب پڑھے لکھے دانشور صمد خاں کے دل کو بہت لبھاتی تھیں۔ کچھ خواتین از سر تا پا جسم ہی جسم تھیں، پھر پیرس کے نائٹ کلبوں، اس شہر نگاراں کی شاہراہوں پر مست خرام شکاری عورتوں، پیشہ ور طوائفوں اور خود ان کی جسمانی وجاہت کی اسیر ہونے والی عورتوں کی بھی کمی نہ تھی جو صمد خاں کے دیہاتی مزاج سے پوری مطابقت رکھتی تھیں، مگر گھر سے نکلنے کے بعد سے انہیں عورت ذات سے جیسے کوئی واسطہ ہی نہیں رہا تھا۔ وہ اس ہیجان اور جسمانی کشش کے زیر اثر کبھی نہیں آئے جس کا جادو انہوں نے اپنی جوانی میں برسوں جگایا تھا۔ جسم کی مانگ کے تحت کبھی کبھی انہوں نے کچھ عورتوں کے قریب جانے کی کوشش بھی کی، مگر پھر ایک حد سے آگے بڑھنے کی کوشش میں انہیں دنیا کی یہ حسین ترین عورتیں نقلی سی معلوم ہونے لگتیں۔ بارہا انہیں ایسا لگا جیسے گوشت پوست کی بنی ہوئی زندہ عورت کی جگہ وہ خوشبو کی کسی بوتل کے ساتھ لیٹے ہوئے ہیں۔ عورت کے بدن کے ساتھ ان کے ذہن میں جس قسم کی چیزوں کا تصور آغاز جوانی میں پختہ ہوگیا تھا وہ ان کے دماغ سے کبھی نہیں نکلا۔ وہ سرسوں ، دھان کی بالیوں اور شیشم کے پتوں اور کیکر کے پھولوں کی ملی جلی خوشبو کو زندہ جسم میں سمو کر دیکھنے کے عادی تھے، اپنی بھربھری مٹی سے الگ ہو کر یورپ کی سنگلاخ زمین پر انہیں کسی عورت میں یہ ساری چیزیں نہیں نظر آسکیں۔ اس بیس برس کے دوران میں بہت سی عورتوں کے ساتھ ان کا میل جول رہا۔ ان پڑھ، پڑھی لکھی، خوب صورت، لفظ بولنے والیاں، محفلوں میں اپنی گفتگو سے جادو جگانے والیاں، مہذب، غیر مہذب، بلا جھجک حرف مدعا زبان پر لانے والیاں، غرض کہ ہر قسم کی عورتیں ان کے آس پاس، آمنے سامنے، صبح سے شام اور رات سے طلوع سحر تک ہمیشہ موجود رہیں، مگر صمد خاں دور کا جلوہ دیکھتے رہے۔ انہیں ایسا لگتا جیسے یہ سب دیکھنے کے لیے ہیں۔ قربت کے لیے کبھی ان کے دل میں تڑپ پیدا ہوئی بھی تو وہ دیرپا نہ ہو سکی۔ یہ گریز پا لمحات کبھی کبھی ان کو اپنی گرفت میں لے لیتے، مگر جلد ہی وہ اپنی اصلی اور مستقل کیفیت میں واپس آجاتے۔ آخرکار انہوں نے زندگی کے اس حسین رخ سے تقریباً کنارہ کشی کرلی اور اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔
وطن واپس آکر انہوں نے ایک بڑے شہر سے دس بارہ میل دور واقع ایک قصبے میں رہائش کا فیصلہ کیا۔ اس قصبے میں ان کا ایک پرانا دوست تھا جو اپنا آبائی مکان چھوڑ کر شہر میں جا بسا تھا۔ یہ خالی مکان انہیں آسانی سے مل گیا۔ گاؤں کے چوراہے پر واقع تھا۔ انہوں نے اس کی بالائی منزل کو اپنا بسیرا بنا لیا۔ یہاں سے وہ چاروں طرف دیکھ سکتے تھے۔ یہیں بیٹھ کر چھ ہفتوں میں انہوں نے اپنی رپورٹ کا خاصا بڑا حصہ مکمل کر لیا تھا۔ یہ رپورٹ گزشتہ دو ہفتے سے ویسے ہی رکھی تھی اس لیے کہ دو ہفتے سے قبل ہی ان کی نظر اچانک اس بے نام قیامت پر پڑی تھی، دن بھر کے کام کے بعد وہ بالاخانے کی کھڑکی سے سرشام اپنے گھونسلوں کی طرف پلٹتے ہوئے پرندوں، دور حد نظر پر بہتے ہوئے سست رو دریا کی روانی، دھان کی گہرے سبز رنگ کی لہلہاتی ہوئی بالیوں اور گنے کے کھیتوں میں سرسراتی ہوئی ہوا کو گویا اپنی طرف کھینچ رہے تھے کہ ان کی نظر سامنے سے آتی ہوئی اس عورت پر پڑی جو اس سارے منظر میں ایک پینٹنگ کی طرف فٹ ہوئی نظر آرہی تھی۔ وہ اور قریب آئی تو انہوں نے دیکھا کہ معمولی کپڑے کا لباس اس کے جسم کو سنبھالنے میں ناکام ہے۔ اس کی چال صمد کو بے حال کر گئی اور جب وہ اور قریب آگئی اور اس نے بوجھل پلکوں کو اٹھا کر دو نشیلی موٹی اور نگراں آنکھوں سے ان پر ایک نگاہ غلط انداز ڈالی اور لبوں پر خفیف سی مسکراہٹ لیے آگے بڑھ گئی تو انہیں اپنے آپ کو سنبھالنے میں دشواری محسوس ہونے لگی، وہ تیز تیز سانسیں لینے لگے، کھڑکی میں سے دور تک وہ اسے جاتے ہوئے دیکھتے رہے اور وہ ساری خوشبوئیں ان کے وجود میں سرائیت ہوتی رہیں جو برسوں پہلے وہ یہاں چھوڑ گئے تھے۔ یہ کوئی الھڑ مٹیار نہیں تھی بلکہ ان کے اندازے کے مطابق پچیس برس یا اس سے بھی زیادہ عمر کی ایک بھرپور عورت تھی۔ اسے دیکھنے کے بعد ان کے لیے کام جاری رکھنا مشکل ہو گیا۔ وہ سیڑھیوں سے نیچے اترے اور ساری شام گاؤں میں ادھر ادھر گھومتے رہے کہ شاید کہیں اس کی جھلک نظر آجائے، مگر وہ کہیں نہیں تھی، رات بھر وہ جاگتے رہے اور ا س کے بارے میں سوچتے رہے۔ رات بھر وہ اپنے آپ کو مطعون بھی کرتے رہے کہ انہیں یہ کیا ہوگیا ہے، مگر اس بے چینی اور اضطراب میں ایک لذت آزار بھی تھی، وہی لذت جو جوان دلوں کو بے چین رکھتی ہے اور جس سے وہ برسوں پہلے محروم ہو چکے تھے۔ وہ رات بھر سوچتے رہے کہ عمر کے اس حصے میں یہ آتش فشاں کہاں سے پھٹ پڑا ہے۔اس راکھ میں چنگاریاں کہاں سے پیدا ہو گئی ہیں۔ یہ اجنبی عورت ان کے جسم و روح پر کیوں مسلط ہو گئی ہے، ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔اگلے پندرہ روز انہوں نے کوئی کام نہ کیا۔ اپنی رپورٹ نامکمل چھوڑ کر وہ دن بھر اس کا انتظار کرتے تھے۔ بار بار آئینہ دیکھتے، ان کا فیصلہ تھا کہ گو وہ پچپن برس کے ہو گئے ہیں مگر دیکھنے میں اپنی عمر سے بہت چھوٹے نظر آتے ہیں۔بلا شبہ وہ ایک لمبے، چھریرے بدن کے خوبصورت آدمی تھے، رنگ بھی سرخ و سفید تھا، انہی دنوں انہوں نے اپنے سوٹ میں کہیں مدت سے پڑی ہوئی خضاب کی ٹیوب نکال کر سفید بالوں کو سیاہ کر لیا۔اس ساری تیاری کے بعد ان کا زیادہ وقت کھڑکی میں بیٹھے ہوئے باہر دیکھنے میں گزرتا۔ نوکر کو صرف کھانے اور چائے کے وقت گھر میں آنے کی اجازت تھی اس لیے وہ اس محاذ پر تن تنہا ڈٹے ہوئے تھے۔ یہ عورت دن میں ایک دو بار ضرور وہاں سے گزرتی اور اسی طرح دراز پلکوں کی اوٹ سے موٹی موٹی نشہ آور آنکھوں کو وا کیے صمد خاں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتی مسکراتی ہوئی آگے نکل جاتی۔ اس کے آنے اور جانے کا کوئی رخ متعین نہیں تھا، اس چوراہے پر وہ کبھی ایک راستے سے آتی تو کبھی دوسرے اور تیسرے سے، اسی طرح اس کے جانے کی سمت بھی غیر متعین تھی۔ وہ کبھی ایک طرف مڑ جاتی، توکبھی دوسری طرف کو نکل جاتی، مگر خان صمدخاں کے لیے اس کا یہ دیدار گویا نشے کی کیفیت رکھتا تھا۔ آج بھی سرشام یہی ہوا۔ وہ آئی اور صمد خاں کو ہلاتی جھنجھوڑتی اور بے حال کرتی ہوئی آگے نکل گئی۔وہ کھڑکی سے ہٹ کر کرسی پر بیٹھ گئے اور دیر تک بے حس و حرکت بیٹھے رہے، سوچتے رہے وہ کون ہے، کہاں سے آتی ہے، کہاں جاتی ہے۔ اس کے بارے میں کسی سے معلوم کرنے کی ان میں جرات نہیں تھی، وہ اس مہم کو خود ہی سر کرنا چاہتے تھے، لیکن اس کے جانے کے بعد یکایک انہیں محسوس ہوا کہ وہ بہت وقت ضائع کر چکے ہیں، کام مکمل کرنے کے لیے ان کے پاس زیادہ وقت نہیں تھا۔انہوں نے اپنے آپ کو مطعون کرتے ہوئے اپنے ساتھ یہ فیصلہ کیا کہ اگلے روز سے وہ اپنی رپورٹ پر کام شروع کردیں گے۔ کرسی سے اٹھ کر انہوں نے دوہفتے سے بند پڑی فائل اٹھائی اور یہ دیکھنے کے لیے کہ اب کام کہاں سے شروع کرنا ہے انہوں نے رپورٹ کا مطالعہ شروع کر دیا۔
یہ دیکھ کر انہیں ایک گونہ اطمینان ہو ا کہ پہلے پانچ ہفتوں میں وہ کافی کام مکمل کر چکے تھے۔ شہر کے بڑھنے پھیلنے کے بارے میں انہوں نے اس کی ابتدا اپنے ذاتی مشاہدات اور احساسات بیان کر نے کے ساتھ کی تھی۔ ابتدائی حصے میں انہوں نے لکھا تھا کہ یہ وہ شہر تو نہیں ہے جیسے وہ بیس برس قبل چھوڑ کر گئے تھے۔ اس وقت اس شہر کی حدیں متعین تھیں۔ اب یہ اپنی حدیں توڑ کر چاروں طرف بڑھ رہا ہے۔ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اس وقت اس میں بسنے والوں کا اپنا ایک مزاج بھی تھا جواب کہیں نظر نہیں آتا۔ یہی نہیں وہ قصبہ جس میں وہ چار پانچ ہفتوں سے مقیم تھے نہ گاؤں رہا تھا نہ شہر سا تھا، وہ اپنا حسن، پاکیزگی اور معصومیت سبھی کچھ کھو چکا ہے، شہر اس کی طرف بڑھ رہا تھا اور میلوں کا فاصلہ طے کر کے اب اس کی حدوں کو چھورہا تھا۔ یہ گاؤں چوبیس برس قبل اپنی ضرورتوں میں خود کفیل ایک سویا ہوا خاموش سا، آبادی کا ایک جزیرہ تھا اب شہری زندگی کا حصہ نظر آتا تھا۔ چاروں طرف بجلی کے قمقمے روشن تھے۔ بازار میں دکانوں کی تعداد بڑھ گئی تھی۔ چائے کی بہت نئی نئی دکانیں کھل گئی تھیں، قرب و جوارغلاظت کے ڈھیر تھے، وہ جہاں بادشمال درختوں کے پتوں سے سرسراتی ہوئی گزرتی تھی، جہاں سے کئی رات بانسری کی مدھر تانیں بلند ہوتی تھیں اور جہاں کی فضا میں پھولوں، پتوں اور گنے کے کھیتوں سے ابھرنے والی مہک کا راج تھا اب وہاں کثیف دھوئیں، بے ہنگم آوازوں اور فضا کی آلودگی میں دم گھٹتا تھا، شہری اور دیہی زندگی کی حدیں ختم ہورہی تھیں۔ صمد خاں نے یہاں آنے کے بعد صبح دم ہاتھ سے چلنے والی چکی یا دودھ بلونے کی آوازیں سننے پر اپنے کان لگائے مگر یہ آوازیں اب نا پید ہو چکی تھیں۔ اس گاؤں میں اب کوئی چکی نہیں چلتی تھی بلکہ یہاں پر بھی تھیلے کے آٹے کا رواج تھا۔دودھ اب پھیلتے ہوئے شہر کو سپلائی کیا جارہا تھا۔ اپنے قیام کے ابتدائی دنوں میں جب انہوں نے باہرنکل کر اپنے آس پاس کا جائزہ لیا تو دودھ بلونے، چکی چلنے یا بیلوں کے گلے میں بندھی ہوئی گھنٹیوں کی آوازیں معدوم ہونے کی وجہ سمجھ میں آگئی تھی۔ اب اس گاؤں کے باہر آس پاس کھیت اجڑ چکے تھے ۔ اب یہاں فصل اور کھیت برائے نام نظر آرہے تھے جگہ جگہ نئی آباد ہونے والی بستیوں کے بورڈ لگے ہوئے تھے۔
شہر اس بستی کی طرف عفریت کی طرح بڑھا آرہا تھا۔ زمین کے قدرتی حسن کو روندتا ہوا، روئیدگی اور تازہ صحت بخش ہوا کو پامال کرتا ہوا آگے ہی آگے بڑھ رہا تھا۔ اس علاقے سے گھاس، پودے، پھول فصلیں سب ختم ہو رہے تھے۔ خود رو جھاڑیوں ، زندگی بخش جڑی بوٹیوں اور لہلہاتے ہوئے پودوں کی جگہ گندگی کے ڈھیر جا بجا پڑے ہوئے تھے، درخت کٹ رہے تھے۔ جھکی ہوئی شاخیں غائب ہورہی تھیں۔ اب یہاں جھینگروں کی صداؤں اور بانسری کی تانوں او ر بیلوں کے گلے میں بندھی ہوئی گھنٹیوں کی صداؤں کی جگہ سیمنٹ کی بوریاں، اینٹو کے ڈھیر،سنگ دل مشینیں، مکسر، لوہے کے ڈھانچے اور جالیاں بکھری پڑی تھیں، زمین کا سینہ جگہ جگہ سے چھلنی ہو رہا تھا، بنیادیں کھودی جارہی تھیں۔ سیوریج کے پائپ جگہ جگہ پڑے تھے اور پھیلتے بڑھتے ہوئے شہر کی ان نئی آبادیوں میں گندے پانی کی نالیاں، غلاظت اور بدبو سے بھری ہوئی نظر آتی تھیں، جگہ جگہ خلق خدا رزق کی تلاش میں بھٹکتی پھررہی تھی، بے ڈھب مکانوں کے حصوں میں نئی دکانیں اور چائے خانے تعمیر ہو رہے تھے، ہوشیار لوگ پختہ مکانوں دکانوں یا محض چھولداریوں میں میز کرسیاں بچھائے جائداد کی خرید و فروخت کرتے نظر آرہے تھے۔ اپنی کوکھ سے انسانوں کے لیے رزق پیدا کرنے والی زمین محض ان کا بوجھ اٹھانے پر مامور کی جارہی تھی۔
صمد خاں نے اس صورت حال کا بھرپور تجزیہ کیا تھا اور اس نئی صورت حال کے اثرات اور مختلف معاشرتی مسائل پر سیر حاصل بحث کی تھی۔ ان کی نظروں کے سامنے پرانی دنیا ٹوٹ پھوٹ رہی تھی اور ایک نئی مگر بے ہنگم دنیا ابھر رہی تھی جو خالص خوشبوؤں اور زمین کی ازلی مہک سے محروم تھی۔ زرعی زمین کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بڑی قیمتوں پر بک رہے تھے۔ وہ لوگ جنہوں نے سیکڑوں سے زیادہ رقم کبھی دیکھی تک نہیں تھی لاکھوں روپے پا رہے تھے مگر نہیں جانتے تھے کہ یہ لاکھوں دنوں میں اڑ جائیں گے۔ پھر جہاں مالک زمین بیچ کر بڑی بڑی رقمیں پارہے تھے وہاں اس زمین پر محنت مزدوری کر کے پشتوں سے رزق کمانے والے ہزاروں افراد بے روزگار ہو کر شہر کی طرف بھاگ رہے تھے جہاں کچھ جسمانی مشقت اختیار کر کے پیٹ بھرنے کے قابل ہو جاتے تو کچھ بھیک مانگنے پر مجبور ہوتے یا پھر جرائم پیشہ افراد کے ہتھے چڑھ جاتے۔ صمد خاں نے اپنے ادارے سے سفارش کی تھی کہ یہ ادارہ مالی تعاون سے اس توڑ پھوڑ کا سدباب کرے، ان کے خیال میں دیہات سے شہر کی طرف آباد ی کی منتقلی سے جو مسائل پیدا ہورہے تھے اس سے سارے ملک کا سماجی ڈھانچہ تہس نہس ہو کر رہ جائے گا، یہ حالت اسی علاقے تک محدود نہیں تھی ملک کے ہر حصے میں ایسی ہی صورت حال تھی۔
صمد خاں کو خود اپنی یہ رپورٹ پڑھ کر افسوس ہو رہا تھا کہ یہ کام اتنے دنوں سے رکا پڑا ہے۔ وہ کس چکر میں پھنس گئے ہیں، کچھ ہوا بھی نہیں، اس سے نکل کر اپنا کام پورا کرنا چاہیے، یہ سوچتے سوچتے ان کا دل بیٹھ گیا۔ وہ بت حیلہ جو پھر ان کی نگاہوں میں بس گیا۔ ان کے سارے ارادے، فرض شناسی اور کام مکمل کرنے کے عزائم دھرے کے دھرے رہ گئے۔ یکایک انہوں نے محسوس کیا کہ یہ عورت ان کے ارادوں، پروگراموں، ان کے آس پاس کی دنیا ، بڑھتے پھیلتے ہوئے شہر، زمین آسمان، غرض کہ ہر شے سے بڑی ہے، عظیم ہے، برترہے اور اس وقت ان کے لیے صرف وہی ایک حقیقت ہے باقی کچھ بھی نہیں ہے۔ ان کا کام، ان کی عملی رپورٹ، تھسیس، ذمے داریاں، فرائض سبھی کچھ فروعی ہے۔ انہوں نے سوچا وہ اسے یہاں چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔ صمد خاں نے یہ فیصلہ کر کے بند آنکھیں کھولیں اور فائل کو بند کر کے سامنے پڑی ہوئی میز پر پٹخ دیا۔ پھر وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے کھڑکی سے پاس آئے اور باہر پھیلی ہوئی دنیا کو دیکھنے لگے۔
شام ہو رہی تھی، اندھیرا پھیل رہا تھا، دور شفق پر بہت سے رنگ پھیلے ہوئے تھے۔ گاؤں کی گلیوں میں دھول اڑ رہی تھی، کچھ فاصلے پر بازار میں لوگ چائے خانے پر بیٹھے گپیں لگا رہے تھے۔ ان بہت سی بے ہنگم آوازوں کے جنگل میں صمد خاں نے محسوس کیا کہ وہ نئی اورپرانی دنیا کے دوراہے پر کہیں گم ہو گئے ہیں، انہیں اپنا ماضی یاد تھا اور نہ مستقبل کا پتہ، اس گاؤں اس بڑھتے ہوئے شہر اور اس بھری ہوئی دنیا میں انہوں نے اپنے آپ کو بالکل تنہا پایا۔اس موجود لمحے سے آگے کیا ہے، انہیں آئندہ کرنا ہے، یہ سب کچھ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا، باہر اندھیرا پھیل رہا تھا لیکن ان کے اندر اس سے کہیں زیادہ گہر ا، مہلک اور جان لیوا اندھیرا رچ بس چکا تھا۔فلم کے مناظر کی طرح ان کی آنکھوں کے سامنے جوانی کے زمانے کی محبوباؤں، بیوی، پیرس کے شبستانوں میں ملنے والی طرح دار عورتوں کی کھیپ گھوم رہی تھی۔ مگر یہ سب کچھ بے ربط تھا۔ انہیں اپنی موجودہ زندگی ہی نہیں گزری ہو ئی زندگی بھی بیکار اور بے معنی محسوس ہو رہی تھی ، کھڑکی سے کمرے کی طرف واپس پلٹتے ہوئے گلی کے سرے پر انہیں پھر وہی سراپا حرکت کرتا ہوا نظر آیا۔ وہ بت بنے اسے اپنی طرف بڑھتا ہوا دیکھ رہے تھے، وہی قیامت کی چال، وہی لباس سے نکلتا ہوا جسم، وہی دراز پلکیں اور وہی موٹی نشیلی گہری اور بولتی ہوئی آنکھیں یکایک ان کی ساری حسیں بیدار ہو گئیں۔ تھوڑی دیر قبل ان پر طاری ہونے والی افسردگی ختم ہوگئی ، وہ بے چارگی اور درماندگی جس نے انہیں لپیٹ میں لے رکھا تھا اب اس کا احساس تک نہ تھا۔ جھٹپٹے میں انہوں نے دیکھا کہ ان کی کھڑکی کے سامنے آکر اس کی رفتار کم ہو گئی ہے اور لبوں پر مسکر اہٹ پھیل گئی ہے۔ ان کی آنکھیں اس سے ملیں اور پھر شاید اضطراری طور پر انہوں نے سر ہلا کر اسے اوپر آنے کا اشارہ کر دیا۔وہ ایک دم تیس پینتیس برس پیچھے چلے گئے۔ دو چار روز آنکھوں ہی آنکھوں میں باتیں کرکے ایسے ہی اشاروں سے ملاپ کا کھیل انہوں نے جوانی میں بہت کھیلا تھا۔ آج پھر وہی صمد خاں بے عمی کے برسوں کی گرد جھاڑتا ہوا اپنی جگہ پر کھڑا تھا، وہ اپنی عمر، اپنا منصب، اپنا مقام سب کچھ بھول کر پھر وہی پرانے نوجوان بن گئے تھے۔
انہوں نے دیکھا کہ دائیں بائیں دیکھتی ہوئی بدن چراتی ہوئی اپنے آپ کو سمیٹتی سیڑھیاں چڑھ رہی ہے ان کی سانس رک گئی، ٹانگیں کانپنے لگیں اور سردی کے موسم میں ان کے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہوگئے۔ سب کچھ ویسا ہی تھا، یہ گزرے ہوئے دنوں کی واپسی تھی، وہ اپنی پرانی دنیا میں لوٹ آئے تھے۔
وہ دروازے سے اندر داخل ہوئی اور ان کے سامنے سے گزر کر آگے بڑھ گئی۔ اب وہ کمرے کے وسط میں کھڑی تھی، صمد خاں کے مقابلے میں وہ بالکل پریشان نہیں تھی۔ بالاخر انہوں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا، وہ کرسی پر بیٹھ گئی۔
کافی دیر خاموشی رہی، صمد خاں اپنے دل کے دھڑکنے کی صدا خود سن سکتے تھے، ان کا جسم تپ رہا تھا، زبان بند تھی عورت نے اشارے سے دروازہ بند کرنے کے لیے کہا۔ انہوں نے مشینی انداز میں اٹھ کر دروازہ بند کر دیا۔ صمد خاں کے وجود میں ایک طوفان برپا تھا۔ یہ کھیل انہوں نے بہت کھیلا تھا، مگر اس وقت ان کی منہ زور جوانی ان کی ڈھال بنتی تھی، اگرچہ ان کی جسمانی کیفیت آج بھی وہی تھی، مگر عمر او رتجربے نے ان کو محتاط بنا دیا تھا۔وہ غور سے اس کو دیکھ رہے تھے۔ وہ قریب آنے پر اور بھی زیادہ خوبصورت اور بھی زیادہ بھرپور اور گداز نظر آرہی تھی اس کے جسم میں اردگرد کی فضا کی ہر چیز تحلیل ہو چکی تھی، سامنے کرسی پر بیٹھی ہوئی اس عورت کی سانسوں میں اس مٹی کی، دھان اور سرسوں اور جنبیلی کی مہک پورے کمرے میں پھیل رہی تھی۔ صمد خاں اس کو سامنے پا کر سب کچھ بھول چکے تھے، انہیں اس حقیقت اور اس عورت کے وجود کے سوا کچھ یاد نہیں تھا۔ ان کے ذہن میں کوئی سوچ، کوئی فکر، کوئی پریشانی نہیں تھی۔ آج انہیں زندگی کی ایک ہی حقیقت کا سامنا تھا، مگر ان کی زبان بند تھی۔
صمد خاں نے ہاتھ بڑھا کر اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تو ان کا پورا جسم تپ اٹھا۔
’’میں آپ کو روز دیکھتی ہوں۔ آپ یہاں دن بھر کیا کرتے رہتے ہیں؟‘‘ آخر اس عورت نے کمرے میں پھیلی ہوئی سنگین خاموشی کو توڑا۔
’’اس بات کو چھوڑو، یہ میں تمہیں پھر کبھی بتاؤں گا۔ تم یہ بتاؤ کہ تم کون ہو۔ کہاں رہتی ہو، اور تمہارے گھر والے کون ہیں؟ ‘‘ صمدخاں نے بڑی مشکل سے زبان کھولی۔
’’یہ میں بھی پھر بتاؤں گی۔ آپ یہ بتائیے، آپ نے مجھے اوپر کیوں بلایا ہے؟‘‘
صمد خاں اس سوال کے لیے تیار نہیں تھے، وہ ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ بالآخر انہوں نے اپنی آواز کی ساری مٹھاس سپردگی اور عجز سے کام لیتے ہوئے کہا۔ مجھے تمہارانام معلوم نہیں ہے، مگر تم بہت خوبصورت ہو۔ میں روز تمہیں اس کھڑکی سے گزرتے ہوئے دیکھتا تھا۔ تمہیں دیکھنے کے بعد میں اپنا سب کچھ بھول گیا ہوں۔ اب میں کچھ نہیں کر سکتا، تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کیا تم میرے ساتھ رہنے کے لیے تیار ہو؟‘‘
عورت نے اثبات میں سر ہلادیا۔
صمدخاں کے ذہن کی تاریکی چھٹ گئی ایک دم سے گویا ان کے سامنے ساری دنیا روشن ہو گئی۔ انہوں نے پھر اپنا سوال دہرایا۔
’’تم میرے ساتھ رہو گی؟‘‘
’’کتنی دیر کے لیے؟‘‘
’’تم یہ کیوں پوچھتی ہو؟‘‘
’’اس لیے کہ کم وقت کے کم پیسے ہوں گے ، رات بھر رکھناہے تو زیادہ پیسے ہوں گے‘‘۔