مسیحائی
دھیرے دھیرے ماریہ نے آنکھیں کھولیں—‘
اُس نے نگاہیں اُٹھا کر دیکھا — چاروں طرف گہری خاموشی اور بلا کا سنّا ٹا چھا یا ہوا تھا۔ آسمان پر سیاہ بادل مسلط تھے۔ ماریہ نے آس پاس نظریں گھمائیں۔ وہ ایک کیچڑ سے بھرے گندے گڑھے میں پڑی تھی۔ اُسکے آس پاس گندے پانی اور کیچڑ کا جماؤ تھا۔ وہ اُٹھنا چاہتی ہے مگر درد کی لہر پورے جسم میں بجلی کی طرح رینگ گئی۔ اُس نے اپنے جسم کو ٹٹولا۔ کئی جگہوں سے خون رس رہا تھا۔ کہیں گہرا زخم تھا تو کہیں مختصر۔ وہ اُسی طرح لیٹی رہی۔ اس میں اُٹھنے کی سکت نہ تھی۔ لیٹے لیٹے اپنے حواس پر زور ڈالا تو دھیر ے دھیرے سب کچھ آئینہ کی طرح صاف نظر آنے لگا—
اُس رات ماریہ ایک فوجی گاڑی پر اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ گشت پر تھی کہ اچانک بارودی سرنگ پھٹنے سے گاڑی کے پر خچے اُڑ گئے تھے جس میں اسکے کئی ساتھی مارے گئے تھے یا زخمی ہو گئے تھے اسی اثنا میں مجاہدین کا ایک دستہ وہاں پہنچ گیا تھا۔ وہ زخمی فوجیوں کو مار رہے تھے۔ ماریہ اندھیرے کا فائدہ اُٹھا کر کسی طرح وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ لیکن کچھ ہی دور جانے کے بعد درد کا احساس شدّت سے ہونے لگا تھا۔ اس نے دردوالے حصیّ کو ٹٹول کر دیکھا اندھیرے میں اسے صاف نظر نہیں آیا لیکن اتنا ضرور پتہ چل گیا کہ کئی جگہوں پر زخم گہرا ہے جہاں سے خون رس رہا ہے۔ وہ کسی محفوظ مقام تک پہنچنا چاہتی تھی لیکن دور دور تک کوئی پناہ گاہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ پھر یہ اسکا ملک نہ تھا۔ ایک طرف دشمنوں کا خدشہ دوسری طرف محفوظ مقام کی تلاش اور تیسری طرف زخموں کا تاب نہ لانا۔ جہاں تک ممکن ہو سکا وہ خود کو گھسیٹ کر آگے بڑھاتی رہی تھی بالآخر اس گڑھے میں گر کر بے ہوش ہو گئی تھی۔کافی دیرکے بعد ہوش آیا تو رات نے اپنا جسم پوری طرح پھیلا دیا تھا—‘
ماریہ نے ایک بار پھر زخموں کو ٹٹولا اور سوچا — اگر زخموں کا علاج نہ ہوا تو پورے جسم میں زہر پھیل جائے گا۔ درد کی شدّت اتنی شدید تھی کہ بہت دور تک جا بھی نہیں سکتی تھی۔ پھر مجاہدین کا خدشہ ۔اس نے بمشکل تمام اپنے جسم کو جنبش دی‘ دھیرے دھیر ے خود کو سرکایا مگر زخم میں کھنچاؤ اور درد کی وجہ سے چیخ نکل جاتی ۔ وہ درد کو برداشت کرتی رہی۔ چیخ کو دباتی رہی اور گڑھے سے خود کو باہر نکالنے میں کامیاب ہو گئی۔ اس نے دیکھا تھوڑے فاصلے پر گھروں سے چراغ کی روشنی جھانک رہی ہے۔ یہ ایک مختصر آبادی والا گاؤں تھا تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چھوٹے چھوٹے مکان آباد تھے۔ ماریہ کو اُمید کی ایک کرن نظر آئی کہ شائد کوئی اسکی مدد کر دے۔ لیکن پھر اس نے سوچا کہ اس اجنبی ملک میں سب اس کے دشمن ہیں۔ کہیں کوئی اسے جان سے نہ مار دے۔ لیکن پھر وہ سوچتی ہے کہ ویسے بھی اگر زخموں کا علاج نہ ہوا تو چند گھنٹوں میں اسکی زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ کیوں نہ کوشش کر کے دیکھا جائے۔ یہ سوچ کر ماریہ خود کو دھیرے دھیرے آگے بڑھاتی رہی سرد ہوا کے تیز جھونکوں کے باعث اس کی پنڈلیاں برف کی سل کی طرح ہو رہی تھیں۔ دل میں کئی طرح کے وسوسے پیدا ہو رہے تھے‘ ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ جسم رفتہ رفتہ اپنی توانائی کھو رہا تھا۔ سردی انتہا کو پہنچ گئی تھی۔ اس نے اپنے آپ کو سنبھا لا اور قدم گھسٹتی ہوئی ڈھلان پر چڑھنے لگی۔ رات بے حد تاریک تھی اندھیرا بے حد گھنا تھا۔ اس کی آنکھیں اس گھپ اندھیرے میں پتھرا کے رہ گئی تھیں۔ اس کی دائیں ٹانگ میں ایک ٹیس سی اُٹھی اور اس کے جسم کی ساری رگوں کو کھینچتی ہوئی نکل گئی اُس نے اپنی زخمی ٹانگ پر ہاتھ پھیرا جہاں سے ابھی بھی خون رس رہا تھا ۔ وہ اسی طرح گھسٹتی ہوئی ٹیلے پر بنے ایک مکان کے قریب پہنچی اور دھڑام سے زمین پر گر کر بے ہوش ہو گئی۔
دھڑام کی آواز سن کر اس گھر کی مکین نے دروازہ کھولا۔ دروازہ کھولنے والی ایک عورت تھی جس کا نام طلعت تھا۔ اس نے دیکھا دروازے کے سامنے ایک زخمی عورت بے ہوش پڑی ہے۔ اسکے بدن پر فوجی لباس ہے جو جہاں تہاں سے پھٹا ہوا ہے۔ اس نے بغور اُسے دیکھا ۔ اُسے سمجھتے دیر نہ لگی کہ یہ امریکی سولجر ہے جو کسی حادثہ میں زخمی ہو گئی ہے اور بھا گتی ہوئی یہاں تک پہنچ کر بے ہوش ہو گئی ہے۔ اس نے ناگواری سے ماریہ کی طرف دیکھا دھڑام سے دروازہ بند کر دیا اور کمرے میں آکر ٹہلنے لگی پھر اس زخمی عورت کو ذہن سے جھٹک دیا اور بستر پر دراز ہوگئی۔ کچھ دیر پہلے وہ اسی بستر پر لیٹی اپنے شوہر انعام کے بارے میں سوچ رہی تھی اور اپنی زندگی کے ایک ایک پل کا احتساب کر رہی تھی کہ کل وہ کتنے سکون سے زندگی بسر کر رہی تھی۔ پورے ملک میں امن تھا۔ اس کا پیار کرنے والا شوہر جب نوکری سے شام کو لوٹتا وہ اس کا انتظار کرتی ۔دونو مل کر کھانا پکاتے اور کھا کر آرام سے سو جاتے۔ شادی کو تین سال ہو گئے تھے بچہ کوئی نہ تھا پھر بھی خوش تھے کہ آج نہ کل بچہ ہو ہی جائیگا۔ لیکن امریکی حملے نے اس کا سکھ چین چھین لیا تھا۔ اب اس کا شوہر دن کو کیا رات کو بھی غائب رہتا ۔ ہفتے دس دن میں ایک بار آتا۔ اس کے کھانے پینے کا بندوبست کر دیتا پھر غائب ہو جاتا۔ اب اس کے اندر ایک عجیب سی بے چینی رہتی۔ وہ اپنے شوہر کے اندر ایک تبدیلی محسوس کرتی ‘ جب اسکی آنکھوں کو دیکھتی تو لگتا ان میں خون اُتر آیا ہے۔ چہرہ تمتمایا ہوا جیسے کسی کا خون کر کے آ رہا ہے یا خون کرنے جا رہا ہے۔ اب وہ جہادی بن گیا تھا اور امریکی فوجیوں پر گوریلا حملے کر تا تھا۔ اب اسکے ہاتھ میں بندوق ہوتی تھی۔
ابھی وہ سوچ کے سمندر میں پھر سے غوطہ لگاتی کہ اچانک اس زخمی امریکی سولجر نے اسکی سوچ کے سمندر میں ایک پتھر پھینکا۔ اب طلعت اس کے بارے میں سوچنے لگی۔ اگر اس عورت کا علاج نہ کیا گیا تو زہر پورے جسم میں پھیل جائے گا اور اسکی موت ہو جائے گی — اچھا ہے مر جائے تا کہ عراقیوں کا لہو نہ بہائے۔ ایک ایک فوجی نہ جانے کتنے عراقیوں کو موت کی نیند سلا چکا ہے اب اسے بھی موت کی نیند سو جانا چاہئے۔ غصے کا ایک جھونکا اسکے اندر تک پیوست کر گیا ۔ سوچ کھنڈت پڑگئی اور دوسری لہر نے سر اٹھایا۔ہمارے پیغمبروں اور صوفیوں نے تو دشمنوں کا بھی علاج کیا تھا اسے بھی معاف کر دیا تھا پھر یہ عورت میرے دروازے پر زندگی اور موت سے لڑ رہی ہے اگر کسی اور جگہ ہوتی تو مجھے پرواہ بھی نہ ہوتی لیکن انسانیت کے ناطے میرا فرض بنتا ہے کہ اسکی مدد کی جائے لیکن اس کے اندر سے کوئی آواز لگاتا— نہیں اسے مر ہی جا نا چاہئے یہ ہماری دشمن ہے اور دشمن کے ساتھ ہمدردی کیسی؟ یہ ہمارے ملک کی دشمن ہے‘ ہماری قوم کی دشمن ہے۔ اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں— مگر اسکا دل کہتا انسانیت کا بھی کوئی تقاضہ ہے—
طلعت کے اندر ایک جنگ چل رہی تھی ۔اس کا دل کہتا اس کی مدد کرنی چاہئے اس کے اندر سے ایک آواز ابھرتی اسے مر نے کے لئے چھوڑ دینا چاہئے— بہت دیر تک تذبذب میں رہنے کے بعد وہ ایک نتیجے پر پہنچی ۔ طلعت کچھ سوچ کر بستر سے اُٹھی دروازہ کھولا تو دیکھا وہ عورت اسی طرح بے ہوش پڑی ہے ۔خون اس کے جسم سے رس رہا ہے۔ طلعت نے اسے سہار ادیکر اُٹھایا اندر کمرہ میں لے آئی اور بستر پر لیٹا دیا۔ اس کے کپڑے اتارے اور زخموں کا علاج کرنا شروع کر دیا۔ دھیرے دھیرے ماریہ کو ہوش آنے لگا اس نے آنکھیں کھو لیں تو خود کو گھر کے اندر پایا اس نے اِدھر اُدھر دیکھا پھر زخموں کو دیکھا جہاں پٹی بندھی ہوئی تھی پھر پاس بیٹھی طلعت پر نظر گئی مشکور نگاہوں سے طلعت کی طرف دیکھا۔
’’ کیا نام ہے تمہارا؟‘‘—طلعت اپنی زبان میں پوچھتی ہے۔ ماریہ اتنے دنوں میں کچھ کچھ وہاں کی زبان سمجھنے لگی تھی۔
’’ماریہ۔۔۔ ماریہ ڈی سوزہ۔۔۔‘‘ اس نے دھیمی آواز میں کہا۔
’’تم فوجی ہو؟‘‘— ماریہ نہیں سمجھ پائی—’’آئی مین یو آر سولجر‘‘— طلعت نے انگریزی میں پوچھا۔
’’یس‘‘—ماریہ نے ڈرتے ہوئے جواب دیا۔
’’یو آر امریکن ؟‘‘—
’’یس ‘ آئی ایم امریکن سولجر‘‘۔
تم زخمی کیسے ہوئی ؟
’’ہم لوگ اپنی فوجی گاڑی پر گشت لگا رہے تھے کہ بارودی سرنگ پھٹ جانے کی وجہ سے میری گاڑی کے پرخچے اُڑ گئے جس میں میرے ساتھی مارے گئے۔ میں زخمی ہو گئی تھی لیکن بڑی مشکل سے یہاں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی ہوں۔ تم نے میرا علاج کر کے مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔ بروقت میرا علاج نہ ہوتا تو ممکن تھا میں مر جاتی‘‘—
طلعت کچھ بولی نہیں خموشی سے اسے سنتی رہی پھر کچھ دیر بعد دھیرے سے اُٹھی اور کچن کی طرف بڑھ گئی۔ ایک پلیٹ میں کچھ کھانے کا سامان لے کر آئی اور فریج سے پانی کی ایک بوتل لا کر اسکے سامنے رکھ دیا۔
’’لو کچھ کھا لو‘بھوکی ہوگی—کھانا کھا کر سو جانا۔‘‘
طلعت اس کے کمرے سے نکل گئی۔ گھر کے سارے دروازے اور کھڑکیاں بند کیں اور بستر پر آ کر دراز ہوگئی۔
رات جیسے سہم سہم کر گزر رہی تھی۔ دم توڑتی ہوئی سیاہی کے پاؤں اُکھڑ رہے تھے لیکن طلعت کے قدم جامد ہو گئے تھے۔ وہ اپنے کمرہ کے وسط میں کھڑی وسوسوں کی دنیا میں غوطہ زن تھی۔ اسکے اندر دھیرے دھیرے ایک خوف سرایت کر تا جا رہا تھا— اس نے ماریہ کی تیمارداری کر کے کہیں کوئی غلطی تو نہیں کی۔ اس نے انسانی ہمدردی کے ناطے اسکی مدد تو کردی لیکن اسکا زخم اتنا گہرا ہے کہ بھرنے میں ابھی ہفتوں لگیں گے ۔ اگر اسی درمیان میں میرا شوہر آ گیا اور ایک امریکی فوجی کو دیکھ لیا تو فوراً گولی مار دے گا۔ مجھ پر الگ ناراض ہو گا کہ میں نے ایک دشمن کو اپنے گھر میں نہ صرف پناہ دی بلکہ اسکی جان بھی بچائی— طلعت اپنے کمرے میں ٹہلنے لگی تھی اسکی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ کبھی دل کہتا کہ وہ ماریہ کو ابھی گھر سے جانے کے لئے کہہ دے تاکہ اُسکی جان بچ جائے— لیکن ماریہ جس حال میں ہے ایک قدم میں نہیں چل سکے گی۔کبھی وہ دل ہی دل میں دعا مانگنے لگتی کہ خدا کرے میرا شوہر ابھی دو چار دن نہ آئے۔ جب ماریہ ذرا بھی چلنے پھرنے کے قابل ہو جائے گی اُسے یہاں سے جانے کے لئے کہہ دیگی— طلت کو یہ سوچ کرقدرے اطمنان ہوا کہ اسکا شوہر کل ہی گیا ہے اس لئے ابھی دو چار دن تو یقیناًنہیں آ ئے گا۔ وہ پلنگ پر آکر آہستہ سے لیٹ گئی۔
صبح صادق طلوع ہو گئی اور سارے ماحول پر سپیدۂ سحر بکھر گیا۔ سامنے والی مسجد کی مینار پر سپید ۂ سحر جھک آیا۔ ماریہ کی آنکھیں کھل گئیں۔ اس نے کھڑکی کی طرف دیکھا۔ صبح ہو چکی تھی۔ وہ اُٹھنا چاہتی تھی لیکن درد کی شدّت ابھی بھی کم نہیں ہوئی تھی۔ وہ بمشکل پلنگ سے اُٹھی اور باتھ روم میں داخل ہو گئی۔ چہرے پر پانی ڈالا۔ تولیہ سے منہ صاف کیا اور بستر پر آکر بیٹھ گئی۔ جب تک طلعت اسکے لئے ناشتہ لے کر آ گئی۔ وہ ناشہ میز پر رکھتے ہوئے کہا—
’’بریک فاسٹ کرلو‘‘
ماریہ نے محبت بھری نگاہ طلعت پر ڈالی۔
’’اب زخم کیسا ہے؟‘‘— طلعت کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔
’’اسے بھر نے میں ابھی کئی دن لگیں گے‘‘— ماریہ نے زخموں کی طرف دیکھا۔
’’ اور درد کم ہوا ؟‘‘— طلعت نے اسکے درد بھرے چہرے کو بغور دیکھا۔
’’کچھ کم ہے‘‘
’’یہ ایک کیپسول لے لو درد کم ہو جائے گا۔‘‘— طلعت نے ایک کیپسول اسکی طرف بڑھا یا۔ ماریہ نے کیپسول کو ہاتھ میں لے کر اسکا نام پڑھا پھر کمپنی کا نام پڑھا۔ تب جا کر اسے ریپر سے الگ کیا اور پانی کے سہارے نگل لیا۔
’’یو آر گریٹ وومن۔۔۔ تم بہت اچھی ہو۔‘‘— ماریہ کی آنکھوں میں نمی آ گئی۔
طلعت نے مسکرائی مگر اپنے شوہر کی یاد آتے ہی اس کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو گئی اس نے سوچا— اگر میرا شوہر آ گیا تو تمہارا سب گریٹ نس نکل جائیگا‘‘— ماریہ کے ناشتہ کر چکنے کے بعد طلعت نے پلیٹ کو سمیٹا اور کمرہ سے نکل گئی۔
دوسری رات تقریباً آدھی رات کے وقت دروازہ پر دستک ہوئی۔ دستک کی آواز سن کر طلعت کے اندر ایک خوف سما گیا ۔اتنی رات میں کون آ سکتا ہے۔ اس طرح کی دستک تو اسکا شوہر ہی دیتا ہے۔ اس نے کانپتی آواز میں پوچھا—
’’ک۔۔۔ک۔۔۔کون ہے ؟‘‘—
’’دروازہ کھولو‘‘—
طلعت اپنے شوہر کی آواز پہچان گئی۔ وہ اندر تک کانپ گئی اور ڈرتے ڈرتے دروازہ کھول دیا۔ نعیم نے اپنی بیوی کے ڈرے ہوئے چہرے کو دیکھا۔
’’کیا بات ہے تم اس قدر ڈری ہوئی کیوں ہو؟‘‘— نعیم نے اسکے چہرے کو اوپر اُٹھایا۔
’’کہاں ڈری ہوئی ہوں‘‘— طلعت نے زبردستی مسکرانے کی کوشش کی ۔ تبھی ماریہ کے کھانسنے کی آواز آئی۔ نعیم کھانسی کی آواز پر چونکا۔
’’یہ اندر کون ہے‘‘
’’ک۔۔۔ک۔۔۔ کوئی تو نہیں ہے‘‘— طلعت بری طرح کانپ گئی۔ نعیم نے بیوی کے سہمے ہوئے وجود کو بغور دیکھا اور اندر کمرہ میں داخل ہو گیا۔ وہاں ایک امریکی زخمی فوجی کو دیکھ کر آگ بگولہ ہو گیا اور اپنی بندوق تان دی۔ ماریہ کو اس وقت ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اسکے تحفظ کی ساری چھتیں ٹوٹ گئی ہیں۔ طلعت نے بندوق کی نالی پکڑ لی اور گڑ گڑا نے لگی۔
’’اسے مت مارو۔ یہ زخمی ہے اور مجبور بھی۔ زخمی حالت میں میرے دروازے پر آ کر بے ہوش ہو گئی تھی اس لئے میں نے اسکی تیمار داری کر دی اور گھر میں پناہ بھی دیا۔ مجبور کو مارنے کے لئے خدا بھی منع کرتا ہے‘‘—
’’عراق کی پوری قوم بھی مجبور ہے‘ جسے اسکی قوم ختم کر رہی ہے۔ عراق میں نسل کشی ہو رہی ہے اور یہ اس میں شامل ہے کیوں کہ یہ ایک سولجر ہے‘‘— نعیم کی آنکھ میں چنگاری سلگ رہی تھی۔
’’لیکن اسے معاف کر دو۔ ہر فوجی اپنے ملک کا وفا دار ہوتا ہے اور جو اُسے حکم ملتا ہے وہی کرتا ہے ۔ یہ بھی اپنے کمانڈر کے حکم کی تابع ہے۔‘‘
’’لیکن خون تو عراقیوں کا بہاتے ہیں‘‘—
’’خدا کے لئے اسے معاف کر دو‘‘— طلعت اسکے قدموں سے لپٹ گئی اور رونے لگی۔ نعیم کچھ دیر کھڑا سوچتا رہا۔ ماریہ مارے خوف کے دیوار سے لگ گئی تھی۔ نعیم نے بندوق کندھے پر ٹانگی اور اپنی بیوی طلعت کو کھڑا کیا۔ اسکے آنسو پوچھے۔
’’تم ایک دشمن کے لئے آنسو بہا رہی ہو۔ اس لئے کہ تم بھی عورت ہو اور یہ بھی ایک عورت ہے۔ میں تمہارے جذبے کی قدر کرتے ہوئے اسکی جان بخش دیتا ہوں لیکن اس سے کہو ہمارے گھر سے فوراً چلی جائے۔‘‘
طلعت نے ماریہ کو نم آنکھوں سے دیکھا — ماریہ بمشکل اُٹھی اور جیسے ہی کھڑی ہوئی لڑکھڑا کر گر پڑی۔ اسکے قدم ٹھیک سے زمین پر نہیں پڑ رہے تھے۔ نعیم آگے بڑھا اور اسکا بازو پکڑ کر لگ بھگ گھسیٹتا ہوا دروازے تک لے گیا۔ خون پھر سے اسکے زخم سے رسنے لگا تھا اور زمین میں رگڑ کھانے سے وہ پھر سے بے ہوش ہو گئی تھی۔ طلعت اسے بے ہوش دیکھ کر نعیم کے سامنے گڑ گڑانے لگی—
’’پلیز اسے یہاں کچھ دن رہنے دو۔ دیکھو یہ پھر بے ہوش ہو گئی ہے۔جب یہ ذرا بھی چلنے پھرنے کے لائق ہو جائیگی۔ چلی جائیگی۔ اس مردہ کو کیوں مار رہے ہو‘‘—
’’لیکن کل جب ٹھیک ہو کر یہاں سے جائے گی تو عراقیوں کا ہی خون بہائیگی—
’’کل جب کسی موڑ پر یہ مڈبھیڑ میں ماری جائے تو مجھے افسوس نہ ہوگا لیکن ابھی یہ مدد کی محتاج ہے‘‘۔
نعیم نے بے ہوش پڑی ماریہ کو دیکھا اور اس کا بازو چھوڑ دیا ہے۔ طلعت اُسے اُٹھا کر بستر پر لیٹا دی اور اسکا زخم صاف کرنے لگی ۔ ماریہ دھیرے دھیرے ہوش میں آنے لگی جب وہ ہوش میںآئی تو بہت ڈری ہوئی تھی مگر طلعت اُسے ڈھارس بندھایا—
’’گھبراؤ نہیں۔ میرے شوہر نے تمہاری جان بخش دی ہے۔‘‘
ماریہ نے سینے پر صلیب بنا کر خدا کا شکریہ ادا کیا—’’تھینکس گاڈ‘‘
طلعت ماریہ کے زخم میں پٹی باندھ کر اپنے کمرہ میں آئی تو دیکھا نعیم کمرہ میں ٹہل رہا ہے۔ نعیم اسے دیکھتا رہا۔ اب اسکا غصہّ قدرے معدوم ہو چکا تھا۔
’’کھانہ نکالوں۔‘‘— طلعت اسکے قریب آ گئی۔
’’ہاں نکالو۔‘‘—
طلعت کمرہ سے چلی گئی۔ کھانے لگا کر پانی کی بوتل میز پر رکھتے ہوئے ایک بار پھر اپنے شوہر کی آنکھو ں میں جھانکا۔
’’آپ مجھ سے ناراض ہیں‘‘
’’کیوں ؟‘‘ نعیم نے طلعت کی طرف دیکھا۔
’’اس لئے کہ میں نے ایک دشمن کو اپنے گھر میں پناہ دی اسکی تیمار داری کی۔‘‘— طلعت تھوڑی شرمندہ بھی تھی۔
’’تمہارا دل بہت نرم ہے۔ دشمن کو بھی گلے لگا لیتی ہو۔‘‘
طلعت کچھ نہیں بولی۔ نعیم کھاتا رہا۔ طلعت اسے صرف تکتی رہی کہ شاید ماریہ کے بارے میں کچھ کہے لیکن وہ خاموش رہا اور کھانے سے فارغ ہو کر اپنے کمرہ میں آ گیا۔
ابھی دونوں میاں بیوی بسترپر درازہی ہوئے تھے کہ زور دار دستک کی آواز سن کر دونوں چونک پڑے۔
’’اتنی رات گئے کون ہو سکتا ہے ؟‘‘— طلعت نے کہا۔
نعیم نے بندوق سنبھال لی۔طلعت کے اندر بھی خوف سما گیا۔ اور دل میں وسوسہ پیدا ہونے لگا کہ کون ہوسکتا ہے۔ شوہر کا اشارہ پا کر اُس نے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔ دروازہ کھلتے ہی امریکی فوجی دندنا کر اندر گھس آئے طلعت کے منہہ سے چیخ نکل گئی۔ نعیم نے امریکی فوجیوں کو گھستے ہوئے دیکھ لیا تھا اس نے گولیاں چلانی شروع کر دیں۔ جواب میں امریکی فوجی بھی اندھا دھند گولیاں چلانے لگے۔ گولیوں کی آواز سن کر ماریہ بھی لڑکھڑاتے قدموں سے کمرہ کے دروازے تک آئی۔ اس نے امریکی فوجیوں کو روکنے کی کوشش کی وہ چلّا چلّا کر کہہ رہی تھی کہ اسے نہ مارو ان لوگوں نے میری جان بچائی ہے مگر فوجی نے اس کی ایک نہ سنی اور نعیم پر گولیوں کی بوچھار کر دی۔ وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ طلعت اپنے شوہر کی تڑپتی لاش سے لپٹ کر رونے لگی۔ ایک فوجی نے ماریہ کواپنے کندھے پر اُٹھایا اور آہستہ آہستہ سبھی فوجی گھر سے باہر نکل گئے۔ ماریہ ابھی تک چلّا چلّا کر کہہ رہی تھی کہ تم لوگوں نے غلط کیا۔ اس نے میری جان بچائی تھی لیکن اسکی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہو گئی۔