مسرتوں کا کھلا ہے ہر ایک سمت چمن
مسرتوں کا کھلا ہے ہر ایک سمت چمن
مگر یہ دل کہ ہے پھر بھی قتیل رنج و محن
بڑے سکون سے زلفیں سنوارنے والے
کسی کی زیست نہ بن جائے مستقل الجھن
مرے جنوں پہ رہے لوگ معترض لیکن
نہ دیکھے آہ کسی نے ترے خطوط بدن
ابھی تو حرف تمنا کا ذکر تک بھی نہیں
ابھی نہ ڈال خدا کے لیے جبیں پہ شکن
دل فسردہ میں یوں تیری یاد آئی ہے
شب سیاہ میں جس طرح روشنی کی کرن
یہ کس نے جھوم کے مستی میں لی ہے انگڑائی
فسوں طراز ہے یہ کس کا رنگ پیراہن
گزر گیا ہے زمانہ مگر مجھے رفعتؔ
ہے اب بھی یاد کسی کی نگاہ توبہ شکن