روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کی قیمت یا اقتدار کے لیے اقدار کو قربان کرنے کی سزا

ایک کہاوت ہے کہ برائی کبھی اپنے گھر کا راستہ نہیں بھولتی۔   دس جنوری 2022 کو  روہنگیا کی سابق سٹیٹ کاؤنسلر آنگ سان سو چی کو  فوجی عدالت کی جانب سے  صرف غیر قانونی طور پر واکی ٹاکیز درآمد کر کے اپنے پاس رکھنے کے الزام میں چار سال کی قید سنا دی گئی۔   پچھلے سال یکم فروری کو فوج نے ملک میں ایک سال کی ایمرجنسی لگاتے ہوئے انہیں گرفتار کیا تھا اور ان پر درجن بھر الزامات عائد کرتے ہوئے انہیں نظر بند کر دیا تھا۔ دسمبر میں انہیں کرونا وائرس  کی پابندیاں توڑنے اور عوام کو اکسانے کے الزام میں چار سال کی قید سنائی گئی اور اب چار سال کی مزید قید سنا دی گئی ہے۔ ابھی درجن بھرمقدمات میں سے  سات آٹھ  کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے اگرباقی  ماندہ مقدمات میں بھی سوچی کو  سزا ہوئی تو یہ قید تقریباً  ایک سو دو سال  بنے گی۔

               چھیہتر سالہ سو چی کبھی  دنیا میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی علم بردار سمجھی جاتی  تھیں،  انہیں اسی ضمن میں 1991 میں نوبل  انعام سے بھی نوازا گیا۔ لیکن پھر  انہوں نے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کا دفاع کیا تو  ان کے چہرے سے انسانی حقوق  کی علم برداری کا نقاب چاک ہو گیا۔ اس نقاب میں سے اقتدار کی خاطر سمجھوتا کیے ایک  سیاست دان نکلا، جسے   انسانوں پر ہوتے بدترین مظالم سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ وہ تو ایسے ظالموں سے سمجھوتا کیے  بیٹھا  تھا جن  کے مظالم کو چنگیز خان بھی دیکھے تو شرما جائے۔  پھر جب نقاب اترا تو  ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کو  اپنی اس لاڈلی سے ایوارڈ واپس لینے پڑ گئے۔

               دراصل ان انسانی حقوق کی تنظیموں کا رومانس سو چی  سے اس لیے تھا کہ وہ برطانیہ میں آکسفورڈ سے ڈگری لینے کے بعد اپنی پر سکون زندگی، شوہر اور دو بچے چھوڑ کر 1988 میں روہنگیا لوٹی تھیں۔ انہوں نے اپنی ایک نیشنل ڈیموکریٹک الائنس نامی سیاسی تنظیم کی بنیاد ڈالی تھی اور ملک میں بدترین فوجی آمریت کے خلاف پر امن جدوجہد کا آغاز کیاتھا۔  جدوجہد کے آغاز میں ہی انہیں نظر بند کر دیا گیا تھا۔ 1990 میں روہنگیا میں انتخابات ہوئے۔ سو چی کی پارٹی جیتی، کیونکہ ان کی پارٹی روہنگیا کی اکثریتی بدھ کمیونٹی میں خاصی مقبول تھی۔ فوج نے ان کو اقتدار دینے سے انکار کر دیا۔ ان کے اگلے بیس سال کبھی نظر بند اور کبھی رہائی کے عالم  میں گزرے۔ اس دوران برطانیہ میں 1999 میں ان کے شوہر کا انتقال ہوا لیکن وہ  ان کی آخری رسومات میں شریک نہ ہو سکی۔ بیس سال  سے زائد وہ اپنے بچوں سے بھی نہ مل سکیں۔ 2008 میں روہنگیا میں ایک آئین منظور کیا گیا۔ اس آئین میں فوج کو آئینی طور پر پچیس فیصد اقتدار کا شراکت دار بنا دیا گیا اور وزارت داخلہ، دفاع اور سرحدی امور کے قلم دان مستقل طور پر فوج کو ہی دے دیے گئے۔ اس آئین کے تحت  2010 میں انتخابات ہونے تھے۔ لیکن ان سے پہلے ہی ایک قانون منظور کیا گیا۔ وہ یہ کہ   وہ  جو  خود یا ان کے رشتہ دار بیرونی شہریت رکھتے ہیں، ملک کے سربراہ  نہیں بن سکتے۔ سو چی کے دونوں بچے برطانوی شہری تھے۔  ہر کوئی جانتا تھا کہ یہ قانون سوچی کا راستہ روکنے کے  لیے بنایا گیا ہے۔ جب انتخابات ہوئے تو سو چی کی پارٹی نیشنل ڈیموکریٹک آلائنس جیتی، لیکن سربراہ سو چی نہ بن پائیں۔

وہ بعد میں اوپوزیشن لیڈر بنیں لیکن واقفان حال   اسی دوران ان کے سمجھوتے کی زندگی کا آغاز بتاتے ہیں۔ 2015 میں بھی سو چی کی پارٹی ہی جیتی۔ قانون کی وجہ سے وہ صدر نہیں بن سکتی تھیں۔ لیکن چونکہ اب ڈیل ہو چکی تھی، لہٰذا سٹیٹ کاؤنسلر کا ایک نیا عہدہ تشکیل دیا گیا اور سو چی کو ملک کا ڈیفکٹو سربراہ بنا دیا گیا۔  اقتدار میں آنے  کے بعد  مظالم پر خاموشی دیکھنے کو ملی تو عالمی انسانی حقوق کی برادری کا ماتھا ٹھنکا۔ لیکن بہت سے لبوں پر مہر برقرار رہی۔

               پھر 2017 آیا۔  رخائن صوبے کے مسلمانوں کی نسل کشی کی لہر نے زور پکڑا۔ الزام تھا کہ  ان میں سے کچھ نے سکیورٹی فورسز اور پولیس پر حملے کیے ہیں۔ 25 اگست 2017 کے دن بدھ جتھوں سمیت فوج کا مسلمانوں پر حملہ ہوا۔ پھر دنیا نے لاکھوں انسانوں کو بے سرو سامانی کے عالم میں بے یار و مدد گار  جان بچا کر بھاگتے دیکھا۔ بی بی سی کے مطابق 6700 روہنگیا مسلمان وحشیانہ طریقے سے مار ڈالے گئے۔  ان میں  سات سو سے زائد ایسے بچے تھے جو پانچ سال سے بھی کم تھے۔ کئی خواتین کی   جتھوں کی شکل میں عصمت دری کی گئی۔ کوئی پر سان حال نہ تھا۔ جو بچ گئے، جان بچا کر بنگلا دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔

               ان سب دلدوز مناظر کے درمیان سو چی نسل کشی سے انکار کرتی نظر آئیں اور فوج کا دفاع کرتی نظر آئیں۔ 2019 میں مغربی افریقہ میں موجود  مسلمانوں کے چھوٹے سے ملک گیمبیا نے  روہنگیا مسلمانوں کے خلاف سوچی اور فوج کے جرائم پر عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ دائرکر دیا۔  جب وہاں آ کر سو چی نے ذاتی طور پر فوج کا دفاع کیا  تو انسانی حقوق کی علم برداری کے سارے بھرم ٹوٹ گئے۔        عالمی برادری نے سو چی کی مذمت کی۔ بہت ساری تنظیموں نے جو انہیں اعزازی انعامات دے رکھے تھے واپس لے  لیے ۔ فوج کی خاطر ان سب قربانیوں پر جو کچھ سوچی کے ساتھ ہوا وہ بھی ایک تاریخ ہے۔

               2020 میں روہنگیا میں انتخابات ہوئے تو سو چی کی پارٹی ایک دفعہ پھر جیتی۔ یکم فروری 2021 کو جب پارلیمان کا پہلا اجلاس ہونا تھا اور حکومت نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کو ملنی تھی تو فوج نے مارشل لا لگا دیا۔ سوچی سمیت ان کے پارٹی کے دیگر رہنماؤں کو قید کر دیا اور کیس بنا دیے۔اب جب اسی فوج کے ہاتھوں سوچی کو سزائیں  ہوتی دیکھ رہے ہیں جس کے لیے انہوں نے اپنا وقار اور انسانیت داؤ پر لگادی تھی،  تو ساغر صدیقی کا شعر یاد آتا ہے:

میں  نے  جن کے  لیے راہوں میں بچھایا تھا لہو

ہم  سے  کہتے  ہیں  وہی  عہد  وفا  یاد نہیں

لیکن یہ ان رہنماؤں کے لیے سبق بھی ہے جو اقتدار کی خاطر ظالموں سے ہاتھ ملاتے ہیں۔ ان کو یاد رکھنا چاہیےکہ سانپ تو اپنے بچے نہیں چھوڑتا، ان سے وفا کیا کرے گا۔

متعلقہ عنوانات