میں تو زہر غم بھی پی کر جی لیا
میں تو زہر غم بھی پی کر جی لیا
دہر میں سقراط کا چرچا ہوا
جان دے کر ان کو پایا ہے مگر
پھر بھی یہ سودا بہت سستا ہوا
بولتی آنکھیں تبسم زیر لب
چہرۂ گلفام شرمایا ہوا
حسن نے چپکے سے عنواں لکھ دیا
عشق کا مشہور افسانہ ہوا
آبروئے حسن آنکھیں خشک ہیں
ابر غم بھی ہے مگر برسا ہوا
مست و شاداں مطمئن غربت میں ہے
جیسے دلدل میں کنول ہنستا ہوا
مل کے جی سلطانؔ سے خوش ہو گیا
آدمی معقول ہے سلجھا ہوا