میں کب لکھوں گا گیت اپنی رہائی کا

وہ کہتی ہے
مجھے تم سے محبت ہے
علی میرے علی تم سے محبت ہے
وہ سچ کہتی ہے سچ کہتی رہی ہے
ابد کی آخری شب تک وہ سچ کہتی رہے گی


مجھے دیوار پر اس نے وہاں ٹانگا ہوا ہے
جہاں سے دیکھ سکتا ہوں
زمیں کے اس طرف پھیلی گھنیری سرمئی تنہائیاں
جو خود اس نے کبھی تحریر کی ہوں گی
اکیلی شام کے خاموش ہونٹوں پر


مگر جب سے
وہ خود اپنی خبر میں ہے
اسے دیوار کی اس دوسری جانب کی کوئی بھی خبر اچھی نہیں لگتی
خبر نے اس کو کیسا بے خبر رکھا ہوا ہے
اور دیوار کو
دیوار کے پیچھے کھڑی
تنہائیوں کی
مستتر لمبی زبانیں
چاٹ کر کاغذ بنانے کا علم میں ہیں
میں اس کاغذ پہ تب لکھوں گا
گیت اپنی رہائی کا