میں بہاروں کے روپ میں گم تھا

میں بہاروں کے روپ میں گم تھا
جب تجھے مجھ سے کچھ تبسم تھا


تھا وہ اپنے ہی خوف کا محکوم
جس کی آواز میں تحکم تھا


وصل تیرا رہا نہ راز کہ صبح
در و دیوار پر تبسم تھا


میرے شعروں میں ڈھل سکا نہ کبھی
جو مری روح میں ترنم تھا


میں پیمبر نہ تھا مگر مجھ سے
ماہ و خورشید کو تکلم تھا


سب بہانے تھے کوچہ گردی کے
کون تیری تلاش میں گم تھا


میرا ساحل نہ بن سکا صہباؔ
میری فطرت میں جو تلاطم تھا