میں با وفا ہی رہا رہ کے بے وفاؤں میں
میں با وفا ہی رہا رہ کے بے وفاؤں میں
گل بہار کی صورت کھلا خزاؤں میں
بھری بہار میں دیکھے جو پھول جلتے ہوئے
رکے نہ اشکوں کے دریا مری گھٹاؤں میں
ہمارے ہاتھوں سے جب وقت کی گرہ نہ کھلی
تو لوگ سمجھے کہ ہم خوش ہیں ابتلاؤں میں
ترے حضور رہی قہقہوں پہ پابندی
رہا ہے خوف بھی رقصاں مری صداؤں میں
کرو نہ ساری مکدر فضا جہاں والو
مرے بھی حصے کی سانسیں ہیں ان ہواؤں میں
خلوص کی نہ چلی ایک بھی یہاں اشرفؔ
گنوایا وقت عبث ہم نے التجاؤں میں