میں اگر کر دوں رقم جوش جنوں کاغذ پر

میں اگر کر دوں رقم جوش جنوں کاغذ پر
لفظ بن بن کے ڈھلے دل کا یہ خوں کاغذ پر


کیا خبر کون سے حرفوں کو ملاتے ہوں گے
کبھی لکھا ہی نہیں ہم نے سکوں کاغذ پر


طے شدہ ہے کی تمام عمر بدن اٹھ نہ سکے
میں کبھی لکھ دوں اگر سر کو نگوں کاغذ پر


ٹوٹ کے پھر تو عدو کے کہیں کام آتے ہیں
جب بھی چلتا ہے محبت کا فسوں کاغذ پر


اس نے جب باغ نہاں کو نہاں رکھا گلزار
ہم نے بھی سبز رکھا دشت دوراں کاغذ پر


مجھ سے برہم ہے فلک اتنی سی خواہش پہ مری
توڑ کر ایک ستارے کو رکھوں کاغذ پر


اب یہی کام ہے تصویر نمائی تیری
اور پھر پہروں تجھے تکتا رہوں کاغذ پر


جوئے خوں آنکھوں تلک آنے لگی تھی سو مجھے
کاٹ کر رکھنا پڑا زخم دروں کاغذ پر


کچھ حقیقت کے بھی لفظوں کو جگہ دو نایابؔ
لکھتے رہتے ہو بھلا کرب ہی کیوں کاغذ پر