مغرب کے ادھورے سچ اور مکمل جھوٹ

کچھ دن قبل ایک تصویر نظر سے گزری ۔ تصویر میں منظر کچھ ایسا  حیران کن تھا  کہ مَیں دیکھ کر چونک کر رہ گیا ۔ تصویر میں ایک مصری شخص،  بیچ بازار میں بیٹھا قدیم حنوط شدہ نعش یعنی ممی بیچ رہا  تھا۔

پڑھنے میں ناقابلِ یقین لگ رہا ہے نا،  لیکن یہ حقیقت ہے۔   یہ تصویر تھی   1865 کی ، جب یورپی اقوام کے نزدیک اور ان کے اپنے تئیں  بس وہی کرہ ارض پر خدا کی پسندیدہ مخلوق اور انسان کہلائے جانے کے حقدار تھے۔

مفتوحہ علاقوں کے مکیں ان کی نظر میں نہایت کم نسل بے وقعت ، اور ان ہی کی اپنی اصطلاح میں ، Sons of lesser gods، یعنی کم تر خداؤں کی اولاد تھے   اور ان ممالک کی تہذیب اور ثقافتی ورثہ سب ہیچ تھا۔

برصغیر کے ساتھ انھوں نے  جو کیا سو کیا،  مصر جیسے عظیم الشان زندہ عجائب گھر کو جس طرح لوٹا گیا،  اس کا محض ایک فیصد حصہ ہی شاید آج یورپی میوزیمز کی زینت ہے۔

 

مصر سے ملنے والی ان ممیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا رہا؟  آئیے ذرا دیکھتے ہیں:

یورپی لوگ ،  اہرام مصر سے ممی خرید کر لاتے اور پھر اپنے محلوں میں جشن برپا کرتے اور اس جشن کا اختتام ممی کے جسم پر موجود کفن نوچ کر ہوتا،  جس کے بعد لاش جلا کر اس کی راکھ سے انتہائی فضول کام کیے جاتے،  یہاں تک کہ اس راکھ سے مردانہ طاقت کی نام نہاد دوائیں تک بنائی گئیں۔

یہی ممیاں امریکا گئیں،  جہاں ان باقیات سے اعلیٰ ترین کاغذ بنانے کا کام لیا گیا۔

حد تو یہ ہے کہ برطانوی راج میں ان ممیوں کو لوکو موٹو ٹرین انجنوں میں کوئلے کی جگہ بھی استعمال کیا گیا۔

وہ تو خدا بھلا کرے کہ صنعتی ترقی کے تیز گھومتے پہیے اور روس سے اٹھتی اشتراکیت کی تحریکوں نے یورپ میں ایک تعلیمی سرگرمی پیدا کی جس کے سبب مصر کے اس قیمتی اثاثے کی اہمیت کا احساس پیدا ہوا،  اور انہیں بچانے کی بھاگ دوڑ شروع کی گئی۔

پھر بھی بیسویں صدی کے وسط تک یہ حال تھا کہ امریکا اور یورپ کے امرا ، ان ممیوں کو بلیک مارکیٹ سے خریدتے اور اپنے گھروں میں بطور نوادرات استعمال کرتے،  حد تو یہ تھی کہ جو پوری ممی نہیں خرید سکتا تھا وہ اس کے جسم کا کچھ حصہ خرید لیتا تھا جس میں سب سے قیمتی حصہ سر تھا۔

اہلیانِ مصر بھی دیگر تمام مفتوح اقوام کی طرح نہ صرف اپنے قومی ورثے کو لٹتا دیکھتے رہے،  بلکہ خود بھی اس خرید و فروخت میں برابر کے شریک رہے اور اپنا ورثہ کوڑیوں کے بھاؤ مغربی نوابوں کو بیچتے رہے۔

آج جب دنیا جنیوا کنونشن پر دستخط کر چکی بلکہ اسے بھی کئی دہائیاں گزر گئیں تو یہی مغرب ہمیں بتاتا ہے کہ آپ کس قدر جاہل تھے،  آپ کی کوئی تاریخ نہیں تھی،  آپ صدیوں قدیم زمانے میں جی رہے تھے،  یہ تو ہم تھے کہ ہم نے آپ پر شعور کے دروازے کھول دیے۔

نہیں صاحب!  نہ ہم کبھی جاہل تھے،  اور نہ بے شعور،  بس ہماری غلطی یہ تھی کہ ہم نے اسلاف کے چھوڑے علمی ورثے کی قدر نہ کی اور نجانے کس ذہنی اپچ کے پیش نظر اسے آگے نہیں بڑھایا،  اور اس غلطی کا خراج بد ترین غلامی کی شکل میں پیش کیا۔

ہمارے کچھ خود ساختہ دانشور ہمیں یہ تو بتاتے ہیں کہ جب برطانیہ میں آکسفورڈیونیورسٹی بن رہی تھی عین اسی دور میں یہاں ایک بادشاہ اپنی محبوبہ کی یاد میں تاج محل بنا رہا تھا ۔

لیکن وہ سب نابغے یہ بات بھول جاتے ہیں کہ وہ علوم جو اس آکسفورڈ یونی ورسٹی نے ابھی پڑھانے تھے، ان میں سے چھبیس جدید ترین علوم تاج محل کے مقامی ماہرینِ فن نے اس قدر مہارت سے استعمال کیے تھے کہ آکسفورڈ اور تاج محل بننے کے دو سو سال بعد بھی  برطانوی ماہرینِ تعمیرات اس عمارت کو دیکھ کر انگشت بدنداں تھے،  اور اپنے ملک کے عوام کے لیے اہل ہند کے اس جدید فنِ تعمیر پر کتابیں لکھ رہے تھے۔ آج بھی اس تاج محل کے کئی معمے ہیں ، جن کو سلجھانے کے سلسلے میں مغرب چند مفروضوں کو سامنے لانے کے سوا کچھ نہیں کر پایا۔

جس فلو سے آج بھی آپ کے ہاں ہزاروں لوگ مرجاتے ہیں،  اس فلو کا علاج ہمارے حکیم صدیوں سے جوشاندہ سے کرتے چلے آرہے ہیں۔

سو یہ بات یاد رکھیے کہ  ہم جاہل کبھی نہ تھے ، بس میدان جنگ میں مار  کھا  گئے.