لین دین

شام کے گہرے سائے موت کا اذیت ناک بوجھ بن کر نانا صاحب کے دوران میں آہستہ آہست اترتے جارہے تھے۔ اس رنگا رنگ دنیا سے رخصت ہونے کا احساس زردیوں کا روپ اختیار کر کے ان کے جھریوں بھرے چہرے کی ایک ایک شکن، ایک ایک سلوٹ میں سماتا جارہا تھا۔ اردگرد کا ماحول بڑا غم انگیز ہو گیا تھا۔ حیات وموت کی زبردست کشمکش کے منظر نے دیکھنے والوں کی آنکھوں میں ایسے درد کو اجاگر کردیا تھا جس کی تڑپتی خاموشی میں دھڑکتے دلوں کی شروعات ہوتی ہے۔آج گھر کی ہر شے زندگی کے مچلتے ، ہمکتے جذبات سے دست کش ہو کر جمود کی گود میں بیٹھ چکی تھی۔ ایک بے حد خطرناک طوفان تھا جو ہنوز آیا نہ تھا لیکن جس کی آمد کی اطلاع سب کو مل چکی تھی۔
خاندان کے سارے لوگ روحانی کرب کی گرد میں اٹے ہوئے ایک کمرے میں جمع تھے ۔ دریچے کے قریب ایک پلنگ پر نانا صاحب گردن تک سفید کفن جیسی چادر اوڑھے چت لیٹے تھے۔ ان کا جسم بالکل غیر متحرک اور ساکت تھا۔ بس آنکھیں نیم وا تھیں اور سوگواروں کے ہجوم سے بے نیاز ایک ٹک چھت کی طرف مرتکز تھیں۔ شاید اس جگہ موت چپکے بیٹھی اشاروں اشاروں میں ان پر اپنی آمد کا مقصد واضح کررہی تھی۔ ہر چند لمحوں بعد ان کے چہرے پر اینٹھن اور تشنج کے آثار پیدا ہوجاتے۔ اگرچہ اب تک تقدیر کے جابر دیو نے کمرے کے محدود دنگل میں لڑی جانے والی زندگی وموت کی اس کشتی میں ریفری بن کر موت کی فتح کا اعلان تو نہیں کیا تھا لیکن اندازے سے یہی معلوم ہورہا تھا کہ موت کا پلہ بھاری ہے۔
نانا صاحب اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، ایک ایسا خوبصورت گلدستہ جس کے رنگا رنگ پھولوں کی خوشبوئیں تھکے ہوئے بوجھل احساسات کو تروتازہ کرنے کی قوت رکھتی تھیں۔ وہ محض اپنے گھر کے نانا نہیں تھے بلکہ ان کی متاثر کن شخصیت کے بوقلموں پہلوؤں نے انہیں جگت نانا بنا دیا تھا۔ حتیٰ کے وہ حضرات جن کی دودو فٹ لمبی داڑھیاں تھیں اور جو خودکئی بچوں کے نانا بننے کا شرف حاصل کر چکے تھے ، وہ بھی ان کو اس انداز سے ’’نانا صاحب‘‘ کہتے تھے جیسے وہ واقعی ان کے حقیقی نانا تھے۔ مگر انہوں نے اس بات کا کبھی برا نہیں منایا تھا۔ایسے حضرات سے وہ اسی طرح پیش آتے تھے جیسے اپنے حقیقی نواسوں سے پیش آتے تھے۔
نانا صاحب یوں تو گونا گوں خوبیوں کے مالک تھے مگر جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ انسان لاکھ اشرف المخلوقات سہی لیکن وہ بے عیب نہیں ہوسکتا۔ کچھ ایسی ہی بات نانا صاحب کے متعلق بھی کہی جا سکتی تھی۔ وہ لاکھ کردار کے غازی سہی، لاکھ ان کی طبیعت مکھن کی طرح، چاندنی کی طرح سکون بخش سہی، مگرروپے پیسوں کے معاملے میں تو کبھی کبھی وہ کنجوس بنیوں اور سود خور پٹھانوں کو پیچھے چھوڑ دیتے تھے۔دیکھنے میں آیا تھاکہ وہ چمڑی سے زیادہ دمڑی کی فکر میں بولائے پھرے تھے۔ مگر ان کی شخصیت کا یہ ستم بھی ان کی شخصیت کو ہردل عزیز ہونے سے نہیں روک سکا تھا۔ یہ اور بات تھی کہ ان کی اس فطری کمزوری کی وجہ سے گھر کے کچھ لوگ ان سے کھنچے کھنچے سے رہنے لگے تھے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گزنہیں تھا کہ ناناصاحب کی طرف سے ان کے دل کے شیشے میں بال آچکا تھا۔ نانا صاحب سے دشمنی کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ فطری اختلاف کے باوجود سب نانا صاحب کی ذات گرامی کو گھر کے لیے نعمت مترقبہ سمجھتے تھے۔ اور ان پر سو جانوں سے فریفتہ تھے۔ اس کی زندہ مثال یہ تھی کہ اولاد کے سر کے بال سفید ہوگئے تھے مگر اس کے باوجود آج تک کسی نے اپناحصہ مانگنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ کاروبار اب بھی نانا صاحب کے ہاتھ میں تھا، جووہ بڑی کامیابی سے چلارہے تھے۔ آج اس احساس کے زیر اثر کہ نانا صاحب کی دائمی رخصت قریب ہے سب کے کلیجے منہ کو آرہے تھے وہ سب اس طرح خاموش ، سرجھکائے ہوئے کھڑے تھے جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا تھا۔اور پھر اچانک ہوا کا ایک بے تاب جھونکا کمرے میں زخمی کبوتر کی طرح پھڑپھڑا یا تو نانا صاحب نے اپنی آنکھیں کھول دیں۔ آج ان کی آنکھوں کو دردو اضطراب کی دھند نے دھندلا دیا تھا۔ انہوں نے مریضانہ انداز میں ادھر ادھر دیکھا پھر ان کے ہونٹ آہستہ سے کھلے اور تیزی سے بندہوگئے۔ بڑے ماموں تیزی سے ان کی طرف بڑھے اور انکے سرہانے پلنگ کے ایک کونے پر پاؤں لٹکا کر بیٹھ گئے۔
’’ابو اب آپ کی طبیعت کیسی ہے؟‘‘ وہ ان کی طرف جھک گئے۔
جواب میں نانا صاحب نے بڑی بے چارگی سے ان کی طرف دیکھا اور پھر آہستہ آہستہ سے رک رک کر بولے۔
’’مجھے تم سے کچھ کہنا ہے‘‘۔
’’جی فرمائیے‘‘۔
’’غور سے سنو’’۔ لہجہ بڑا پر لکنت تھا۔
’’جی۔۔۔‘‘
’’پچھلے دو تین برسوں میں‘‘ وہ پھولی ہوئی سانس پر قابو پاتے ہوئے بولے۔ ’’بہت سے چھوٹے تاجروں نے مجھ سے قرض لیا تھا‘‘۔ وہ رک گئے، پھرسوگواروں کے ہجوم پر اک کرب ناک نگا ہ ڈالی اور پھر رک رک کر سلسلہ کلام آگے بڑھایا۔ ’’میری موت کے بعد تم لوگ ان سے سارا قرضہ وصول کر لینا اور ۔۔۔ پھردیکھو۔۔۔ قرضے پر جتنا سود واجب الادا ہے وہ بھی وصول کرلینا۔۔۔قرضے کے سارے کاغذات بینک کے لاکر میں محفوظ ہیں‘‘۔
وہ خاموش ہوگئے۔ ان کا چہرہ لمحہ بہ لمحہ رنگ بدل رہا تھا۔ ان کی حالت لحظہ بہ لحظہ ابتر ہوتی جارہی تھی۔ کمرے میں خاندان کے لوگ یوں سرجھکائے چپ چاپ کھڑے تھے جیسے ان کی قوت گویائی سلب ہو گئی تھی۔ بس نانا صاحب کی بات سن کر چند ثانیے کے لیے بڑے ماموں اور چھوٹے ماموں کے چہروں پر ہلکا سا گلابی رنگ پھیل گیا تھا۔
’’خدا کا شکر ہے کہ موت نے مجھے اتنی مہلت دی‘‘۔ ناناصاحب نے رک رک کر کہا۔ ’’اور میں تم سے یہ بات کہہ سکا‘‘۔ نانا صاحب نے بات ختم کی۔چھوٹے ماموں چند قدموں آگے بڑھے۔ پہلے تو انہوں نے پرخیال انداز میں دو تین مرتبہ ہولے سے سر کوجنبش دی اور پھر بڑی آہستگی سے نانا صاحب کو مخاطب کیا۔
’’ابا جان! آپ نے یہ نہیں بتایا کہ آپ نے کاروبار کے سلسلے میں بینکوں سے کتنا قرضہ لیاہے؟‘‘
ان کی بات سن کر نانا صاحب کا کمزور جسم ہلکے سے کانپا۔ چہرہ اداس شاموں کی طرح بجھ گیا۔ ہونٹ کپکپانے لگے۔
’’اوف میرے خدا‘‘۔ ان کا لہجہ اضطراب سے لبریز تھا۔ کتنی سردی ہے۔ ارے دریچہ کیوں کھلا ہے؟ افوہ۔ ہوا بے حد سرد ہے۔ مجھے لحاف اوڑھا دو۔۔۔ ہوا۔۔‘‘
’’ابا جان۔ آپ پر کتنا قرض واجب الادا ہے؟ ‘‘ چھوٹے ماموں نے پھر اپنا سوال دہرایا۔
’’چپ رہو۔ چپ رہو۔ خدا کے لیے۔۔۔ مجھے سکون سے مرنے دو‘‘۔ نانا صاحب کی آواز میں آخری وقت کا درد شامل ہوگیا تھا۔ ’’ارے لحاف۔۔۔ دریچہ بندکرو۔۔۔ہوا سرد ہے۔ ہوا۔۔۔‘‘
اور پھر وہ خاموش ہوگئے۔ چھوٹے ماموں کے ہونٹ اب بھی کچھ کہنے کے لیے پھڑپھڑا رہے تھے!!