لیڈر

تم نے گرگٹ نہیں دیکھا۔ سیاسی حلقوں میں ذرانظر دوڑاؤ۔ تمہیں بیسیوں گرگٹ نظر آجائیں گے۔


تحریک آزادی میں حصہ لینےوالے لوگ عموماً تین قسم کے ہوتے ہیں۔ اکثر توحب الوطنی کے جذبہ سےمتاثر ہوکر، چاہے پھر وہ جذبہ مستقل ہو یا محض عارضی، تحریک میں کود پڑتے ہیں۔ دوسرے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں، جو ایک ہی تیر سے دوشکارکرنےکےاصول میں یقین رکھا کرتے ہیں۔ اور خدمتِ وطن کے ساتھ خدمتِ شکم کرتے رہنا بھی گناہ خیال نہیں کرتے، لیکن تیسرے، اگرچہ ان کی تعداد اتنی زیادہ نہیں، اپنی طبیعت میں کچھ ایسا تلون اور جدت پسندی لیے ہوئے ہوتے ہیں کہ صرف تفریح کی خاطر، محض تنوع کے لیے ایسی تحریکوں میں شامل ہوجایا کرتے ہیں۔ اناؤ کے پانڈے بے چین شرما، اسی تیسری قسم کے محب الوطنوں میں سےتھے۔


شرماجی گھر سے کھاتے پیتے آدمی تھے۔ اناؤ میں آپ کی کافی جائداد تھی۔ والد مہاجنی کرتے تھے۔ کچھ مکان اور دوکانیں بھی تھیں، کچھ زمین بھی تھی۔ پھر بیوی تھی، بچے تھے۔ رشتے ناطے تھے۔ لیکن آپ کو رہنا زیادہ کانپور ہی میں پسند تھا۔ ایک ہی رس کی، ایک ہی طرح کے کام کی بیڑی اپنے پاؤں میں ڈال رکھنا آپ کو کبھی منظور نہ ہوا۔ نیا دیس ہو، نیا شغل ہو، نئی زندگی ہو، یہ بھی کوئی بات ہے کہ ایک ہی پامال لیک پر ایک ہی ڈھلمل رفتار سے چلے جاؤ۔ اسی لیے اگر آپ آج ایک کام کو ہاتھ میں لیتے تو کل اس سے اکتا کر دوسرا لے بیٹھتے۔ اور پرسوں دونوں کو کوستے ہوئے تیسرے کےمشتاق بنے نظر آتے۔ زندگی کے سمندرمیں کبھی آپ نےغوطہ خور بن کر نہ دیکھا۔ ملاح کی طرح اوپر ہی اوپر رہے۔ ان دنوں جب کانپور میں تحریک آزدی شروع ہوئی تو آپ کے سر میں آثار قدیمہ کی تحقیق کا خبط سوارتھا۔ اور آپ کا ذہن ہڑپہ اور موہن جو ڈرو کے کھنڈرات کی سیر کرتے کرتے اکتا گیا تھا۔ چنانچہ تحریک کے شروع ہوتے ہی شرماجی بھی اس میں کود پڑے۔ جیل جانےکو چونکہ آپ ذرا تکلف سمجھتے تھے۔ اس لیے ’’سودیشی پرچار کمیٹی‘‘ کے پروپیگنڈہ سیکرٹری بن گئے۔ اور شہر اور دیہات میں زوروں سےکھادی کا پرچار کرنےلگے۔


انہی دنوں میں گاندھی ہفتہ بھی آگیا۔ پنڈت جی کو اپنی کارگزاری دکھانے کاموقع مل گیا۔ انہوں نے اس دن کے لیے ایک بڑے بھاری جلوس کا اعلان کر رکھا تھا۔ دور دور کے جولاہوں کو اس میں شامل ہونے کی دعوت دے رکھی تھی۔ اتنے دنوں سے گاؤں گاؤں، قصبہ قصبہ پھرکر جو پرچار وہ کرتے رہے تھے، اس کی کامیابی کا انہیں پورا یقین تھا۔ چنانچہ جب جلوس نکلا تو نصف میل لمبی جولاہوں کی ٹولیاں تھیں۔ سب سےآگے شرماجی تھے۔ دیسی سوت کے تاروں کے ہار پہنے اور ہاتھ میں جھنڈا اٹھائے۔ جنرل گنج پہنچتے پہنچتے شرماجی کے جوش کی انتہا نہ رہی۔ کانپور میں کیڑے کا یہی بڑا بازار ہے۔ یہیں انہیں لیکچر دیناتھا۔ ان کے چہرے پر سرخی دوڑ گئی۔ رگیں ابھر آئیں۔ انہوں نے پورے زور سےنعرہ لگایا، ’’کھادی پہننا۔۔۔‘‘ اور ہزاروں آوازیں ایک ساتھ گونج اٹھیں، ’’غریب ہندوستان کو فاقے سے بچانا ہے۔‘‘


اور تب ایک والنٹیر کہیں سے کرسی اور میز اٹھالایا۔ پنڈت جی اس پر کھڑے ہوگئے۔ جلوس یہاں تک آتے آتے کئی گنا بڑھ گیا تھا۔ جولاہوں کے علاوہ اسکول اور کالج کے طلباء، دوکان دار اور دوسرے لوگ بھی شامل ہوگئے تھے۔ جھنڈے کو ایک ہاتھ میں تھام کر اپنے حلق کی پوری آواز سے پنڈت جی نے کہنا شروع کیا، ’’دوستو، آج ہم ایک نازک دور سے گزر رہے ہیں، اس وقت ہمیں سرکار انگلشیہ ہی سےنہیں لڑنا، بلکہ اپنے ان بھائیوں کا بھی مقابلہ کرنا ہےجو خودغرضی سےاندھے ہوکر ہندوستان کی غلامی کی زنجیروں کو اور بھی مضبوط بنا رہے ہیں، جو دولت پیدا کرنے کی دھن میں ہر طرح کے دھوکے کو، ہر طرح کے فریب کو جائز سمجھتے ہیں۔ آج ہم گاندھی ہفتہ منارہے ہیں۔ ہندوستان کی۔۔۔ ہندوستان ہی نہیں، دنیا کی اس برگزیدہ ہستی کا فرمان ہے کہ آج زیادہ سے زیادہ مقدار میں کھدر فروخت کیا جائے۔ لیکن وہ ہمارے بھائی مل کے کپڑے کو ہی کھادی کہہ کر فروخت کر رہے ہیں۔‘‘


اور یہ کہتے ہوئے انہوں نے جنرل گنج کی بڑی بڑی دوکانوں کی طرف دیکھا۔ اور مجمع میں سےہزاروں آوازیں، شیم، شیم، کہہ کر چلااٹھیں۔ اس کے بعد پنڈت جی آہستہ آہستہ اپنی آواز کو اونچا کرتے گئے۔ وطن کی اندوہناک حالت کانقشہ انہوں نےدردانگیز الفاظ میں کھینچا، دوسرے ممالک کے لوگوں کی حب الوطنی کی داستان بیان کی۔ کھادی سے غریبوں کو کتنا فائدہ ہوتا ہے، اور مل کے کپڑے سے امیروں کی کس طرح جیبیں بھرتی ہیں، اس کا تذکرہ کرتے ہوئےوہ اچانک ڈرامائی انداز میں جولاہوں کی طرف مخاطب ہوئے اور انہوں نے کہا،


’’سرمایہ داروں کی خودغرضیوں کا شکار بننےوالے غریبو، جاگو، کہ تمہارے ہاتھ سےروٹی چھینی جارہی ہے، جاگو کہ تمہارے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑا جارہاہے۔ تم خاموش بیٹھے ہو، ہاتھ نہیں ہلاتے، روتے نہیں، چلاتے بھی نہیں، ادھر مہاتما گاندھی نے کھدر پہننے کی تلقین کی ہےاور ادھر مالکوں نے دھڑا دھڑ کھدر تیار کرنا شروع کردیا ہے۔ وہ بھوکے کے ہاتھ سے روٹی کا خشک نوالہ تک چھین لینے کو تیار ہیں۔ وہ کھادی کی تحریک کو چلنے نہیں دینا چاہتے۔ لیکن اگر تمہاری رگوں میں جان ہے، اگر تمہاری تنظیم میں طاقت ہے، تمہاری آہوں میں اثر ہے، اور تمہارے نالوں میں درد ہے۔ تو بازی تمہارے ہاتھ رہے گی۔‘‘


حاضرین نے تالیاں پیٹیں۔ شرماجی پھر دوسرے لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے۔ ان سے کھدر خریدنے کی درخواست کی اور کہا، ’’ہم نےفیصلہ کر لیا ہے ہم محلے محلے جائیں گے۔ گلی گلی جائیں گے۔ ان غریب بے بسوں کی کہانی سب کو سنائیں گے۔ اور مجھے یقین ہے۔ دردمند محب الوطن ہماری پکار سنیں گے۔‘‘ اس کے بعد جھنڈیوں کی سرسراہٹ کی آواز فلک شگاف قومی نعروں کے شور میں گم ہوگئی۔ پنڈت جی نے کھادی کی گاڑی آگے لانے کو کہا۔ اور دیکھتے دیکھتے کئی سو کا کھدر بیچ دیا۔ کئی دنوں تک خوب مقابلہ ہوا۔ پنڈت جی نے سرمایہ داروں اور بڑے بڑے بیوپاریوں کو زک دینے کے لیے نئے نئے طریقے ایجاد کیے۔ پکٹنگ کرنا تو کانگرس کے پروگرام کا ایک حصہ ہی تھا۔ لیکن پنڈت جی نے ایک والنٹیر کور ایسی بنائی جو جاسوسی کا کام کرتی تھی۔ ایک گز بھی مل کا کپڑا آپ نے فروخت نہ ہونے دیا۔


کارخانے دن رات چلتے لیکن مال کی کھپت اتنی نہ ہوتی۔ مل مالکوں نے مزدوری کم کرنےکا فیصلہ کیا، انہیں عام ہڑتال کی دھمکی دی گئی۔ ادھر بڑے بڑے دوکانداروں کی دوکانوں پرالو بولنے لگا۔ جنرل گنج گاہکوں کی بجائے، دوکانداروں اور کانگریسی والنٹیروں کی آنکھ مچولی دیکھنے والوں کے لیے تماشا گاہ بن گیا۔ آخر کارخانہ داروں اور بیوپاریوں کا ایک وفد کانگرس کے بڑے بڑے رہنماؤں سے ملا۔ اور ان کے سامنے انہوں نے اپنی مصیبت کا رونا رویا۔ انہوں نےکہا، ’’ہمارے لیے پہلے ہی بدیشی مال کا مقابلہ کرنا دشوار ہو رہاہے۔ اگر ملک میں بھی ہماری مخالفت کی جائےگی تو اس صنعت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ کارخانے بند کردینے پڑیں گے۔ اور کھادی سےجتنے جولاہوں کا فائدہ ہوتا ہے، ان سےکہیں زیادہ تعداد میں مزدور بےکار ہوجائیں گے۔‘‘ اسی سلسلہ میں وفد صدر انڈین نیشنل کانگرس کے پاس بھی گیا۔ انہوں نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، کانگرس کھادی کا پرچارضرور کرتی ہے لیکن مل کے کپڑے کا بائیکاٹ نہیں کرتی۔ مگر جب انہیں پانڈے بے چین شرماکی تحریک کا حال سنایا گیا تو راشٹرپتی نےخود معاملہ سلجھا دینے کا یقین دلایا۔


شرماجی معاملہ نہ سلجھانا چاہتے ہوں، یہ بات نہ تھی۔ وہ خود اس لیڈری کی بک بک سے تنگ آگئے تھے۔ لیکن لیڈری ہی شہد کی طرح انہیں کچھ ایسی چمٹی تھی کہ چھوڑنےمیں نہ آتی تھی۔ دن رات کام کرتے کرتے وہ تھک گئے تھے، ان کی صحت بھی ٹھیک نہ رہی تھی۔ اور سب سے بڑی بات تو یہ تھی کہ وہ اس یک رنگی سے گھبرا اٹھے تھے۔ وہ تحریک سے چھٹکارا تو حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن خوش اسلوبی کے ساتھ۔ ایسے کہ لیڈری بھی قائم رہے اور ان سب جھگڑوں سےنجات بھی مل جائے۔ اس لیےجب مقامی لیڈرو نے ان سےاس طرح کی پکٹنگ بند کردینے کو کہا تو انہوں نےجواب دیا کہ ’’آخر ان جولاہوں کا کیا بنے گا جو تحریک کے زوروں میں چلنے سے پھر اپنا کاروبار شروع کربیٹھے ہیں۔ اب تحریک بند کردی جائے تو وہ ایک دم پھر سب کے سب بیکار ہوجائیں گے۔‘‘


مقامی لیڈر اب اتنے جولاہوں کا کیا انتظام کرسکتے تھے؟ شرماجی کا مطالبہ تھا کہ ان سب کو مل مالک نوکریاں دیں۔ آخر پھر راشٹرپتی کو تار دیے گئے۔ وہ آئے، کانفرنسیں ہوئیں اور معاملہ سلجھ گیا۔ کہنے کی ضرورت نہیں، شرماجی ان تمام کانفرنسوں میں بڑے رعب کے ساتھ شامل ہوئے۔ طے یہ ہوا کہ کارخانہ وار پنڈت جی کے پیرو جولاہوں میں سے نصف کو اپنے یہاں ملازم رکھ لیں۔ اور باقیوں کے لیے کچھ سرمائے سے ایک اور کارخانہ کھولا جائے اور شرماجی ہندوستانی کپڑے کی مخالفت نہ کریں۔ شرماجی اس کے لیے پہلے ہی تیار تھے۔ انہوں نے کہا آج سے میں تنگ دائرے کو چھوڑ کر اس تحریک کو وسعت دے دوں گا، اور صرف کھادی کی بجائے تمام دیسی چیزیں خریدنے کی تلقین کروں گا۔


اور اسی شام کو ایک بڑے بھاری جلسے میں انہوں نے ’’سودیشی سنگھ‘‘ کی بنیاد رکھ دی۔ دوسرے دن پنڈت جی کو تار ملا، ’تارا کی شادی ہے جلدی پہنچو۔‘ تارا آپ کی بھتیجی کا نام تھا۔ پنڈت جی بھی اب فارغ تھے۔ اسی صبح اناؤ کو روانہ ہوگئے۔ قصبے میں ان کے آنے کی اطلاع پہلے ہی پہنچ چکی تھی۔ ان کے عقیدت مندوں نے اناؤ کی کانگریس کمیٹی کو پیشتر ازیں مطلع کردیا تھا۔ جونہی گاڑی اسٹیشن پر رکی۔ ’سودیشی کی جے، پانڈے بےچین شرما کی جے‘ کے نعروں سےآسمان گونج اٹھا۔ پنڈت جی کچھ حیران سے رہ گئے۔ اپنے ہی قصبہ میں انہیں اس استقبال کی امید نہ تھی۔ لیکن شہرت کاسورج جب چمکتا ہے، تو اس کی شعاعیں کہاں کہاں نہیں پہنچ جاتیں؟ شرماجی اترے تو کانگرسی رہنماؤں نے ان کے گلے میں ہار ڈالے۔ پھر دیویاں آگے بڑھیں۔ شرما جی کاسینہ کئی انچ بڑھ گیا۔ لیکن جونہی اپنی رشتہ داروں پر ان کی نظر پڑی، گھڑوں پانی پڑگیا۔ لیکن جونہی اپنے رشتہ داروں پر ان کی نظر پڑی، گھڑوں پانی پڑگیا۔ سب مسرت ہواہوگئی۔ اس تمام ہجوم میں صرف ان کے گھروالے ہی بدیشی کپڑوں میں ملبوس تھے۔ جب ان کی بیوی نے ان کے گلے میں ہارڈالے۔ تو انہیں ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی انہیں بھگو بھگوکر جوتے مار رہا ہو۔


وہ دن شرما جی نے گھر سے باہر ہی گزارا۔ سنگھ کی شاخ اناؤ میں کھولی۔ اپنے اعزاز میں دی جانے والی ایک پارٹی میں شامل ہوئے۔ مزدوروں کے ایک جلسہ میں تقریر کی۔ کافی رات ہوچکی تھی، جب آپ نے گھر کی طرف قدم اٹھایا۔ خیال تھا، اپنے کمرے میں چپ چاپ جاکر سو رہیں گے۔ سب سے زیادہ انہیں اپنی شریک حیات پر غصہ تھا۔ آخر اس طرح ان کی رسوائی کیوں کی گئی؟ اگر کھادی کے کپڑے نہ پہنے جاتے تھے توا سٹیشن پر جانےکی کیا ضرورت تھی؟ گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ شریمتی جی نے ابھی تک کھانا نہیں کھایا۔ اور رو رو کر آنکھیں سوجا لی ہیں۔ اب کیا کیا جائے؟ شرماجی کچھ فیصلہ نہ کرسکے! وہ تو سوچتے آرہے تھے، کہ بیوی سے بنا آنکھ ملائے، چپ چاپ جاکر لیٹ جائیں گے۔ بلائے گی تو بات تک نہ کریں گے۔ اور آج جس طرح ان کی بے عزتی کی گئی۔ اس کا پورا پورا بدلہ لیں گے۔ لیکن الٹا انہیں منت خوشامد کرنی پڑی۔ ضیافت میں طشتریوں کے ساتھ پورا پورا انصاف کرنےاور اس کے نتیجہ کے طور پر پیٹ میں تل بھر بھی جگہ نہ ہونے کے باوجود آپ کوکچھ نہ کچھ لقمے زہر مار کرنے ہی پڑے۔ تب کہیں جاکر دیوی جی مانیں۔


بس یہیں شرماجی کی ہار تھی۔ گھر میں ہمیشہ انہیں دبنا پڑتا تھا۔ ان کی لسانی، ان کا جوش و خروش، ان کی ہوشیاری، ان کی لیاقت سب یہاں ٹھنڈے پڑ جاتے تھے۔ دوسرے دن بیوی نے ساتھ چل کر کچھ کپڑا خرید دینےکو کہا۔۔۔ شرماجی کو اپنی بات کہنے کا موقع مل گیا۔ بولے، ’’مجھے ساتھ لے جاکر کیا کرو گی؟ پہلے ہی کہیں منہ دکھانےلائق نہیں چھوڑا۔ اب کچھ دن یہاں رہنے بھی دوگی یا نہیں؟‘‘ بیوی نے ان کی طرف اس طرح دیکھا، جیسے پوچھ رہی ہو کہ اس سب تقریر کا مقصد کیا ہے؟


’’کل وہاں بدیشی کپڑے پہن کر کیوں چلی گئی تھیں‘‘ شرما جی نے کہا۔


’’اچھا یہ بات ہے!‘‘ بیوی نے ایک قہقہہ لگایا، ’’آپ کے سر کچھ دن کے لیے یہ خبط سوار ہوا ہے تو اس کایہ مطلب تو نہیں کہ سب ہی خبطی ہو جائیں۔‘‘


’’میں خبطی ہوں؟‘‘ شرما جی نے گرج کر کہا۔ بیوی نے ذرا متین ہوکر ان کے چہرے کی طرف دیکھا، اور آنکھوں میں آنسو بھر کر بولی، ’’تو یوں کیوں نہیں کہتے کہ میں کچھ خرید کرنہ دوں گا۔ پہلے ہی آپ کون سی کوئی چیز لاکر دیتے ہیں۔ شادی کا معاملہ تھا۔ اتنے لوگ آئیں گے۔ اس لیے کہہ دیا ورنہ میں آپ کو کب کسی چیز کے لیے کہتی ہوں۔ اتنے میلے، اتنے تہوار آئے گئے۔ میں نے کبھی آپ کو نگوڑی ساڑھی تک کے لیے تو کہانہیں۔ تارا آپ کی بھتیجی ہے۔ اسے تو اچھے ہی کپڑے دینے ہوں گے۔ آپ اپنی سبکی کرا سکتے ہیں۔ لیکن میں تو نہیں کرا سکتی۔‘‘ اور وہ منہ ڈھانپ کر سسکنے لگی۔


شرماجی کی پیشانی کے تیور ڈھیلے پڑگئے۔ اب کیا کریں اور کیا نہ کریں؟ آخر انہوں نے کہا، ’’تو تم جا کر لے آؤ، میں کب روکتا ہوں؟‘‘


’’مجھے کیا غرض پڑی ہے!‘‘ اور یہ کہہ کر وہ واپس مڑنے لگی۔ شرماجی جانتے تھے، ساتھ گئے بغیر چھٹکارا نہ ہوگا۔ اب نہ جائیں گے تو شام کو جانا پڑے گااور جھگڑا اور رونا رلانا الگ ہوگا۔ آخر لمبی سانس لے کر اٹھے۔ اور بولے، ’’چلو۔‘‘ راستے میں شرماجی نے کہا، ’’دیکھو جہاں تک ہوسکے سودیشی کپڑا ہی خریدنا۔ تم نہیں جانتیں اپنے دیس کا کپڑا پہننے سے ملک کو کتنا فائدہ ہوتا ہےاور ولایتی کپڑا خریدنے سے ہندوستان کو جو نقصان ہوتا ہے۔ آہستہ آہستہ اسے وہ اپنی شریک حیات کو سمجھانے لگے۔ وہ بھی خاموشی سے سنتی رہی۔ اور شرماجی کو امید بندھ گئی کہ ان کی تقریر کارگر ہو رہی ہے۔


بزازوں کی دوکانیں تو اناؤ میں اور بھی تھیں۔ لیکن شرماجی کے یہاں ہرلال کی دوکان سے ہی سب سامان آتا تھا۔ وہاں پہنچے تو ہرلال کو ہی کھادی پہنے دیکھ کر آپ ذرا جھجکے۔ شرماجی نے سوچا تھا، اس کا کوئی شاگرد یا نوکر دوکان پر ہوگا۔ کپڑا خریدیں گے اور چلیں آئیں گے۔ لیکن اب، اب کیاکریں؟ لیکن اب ہو ہی کیا سکتا تھا؟ خاموشی سے آگے بڑھے۔ شرماجی کو دیکھ کر ہرلال نے سودیشی کپڑوں کا انبار لگادیا۔ شرماجی بھی حوصلہ سے سودیشی کے گن گاتے ہوئے شریک حیات کو کپڑے دکھانے لگے۔ لیکن دیوی جی کو کچھ پسند نہ آیا۔ آخر انہوں نے دکاندار سے کہا، ’’تمہارے یہاں ویسی ساڑھیاں نہیں جیسی پہلے تارا کے لیے گئی ہیں؟‘‘ دوکاندار تاڑ گیا۔ کنکھیوں سے شرماجی کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے کہا، ’’وہ تو بدیشی تھیں، ہم نےبدیشی مال بیچنا بند کردیا ہے۔ کچھ تھوڑا سا اندر بند پڑا ہے۔ کہیے تو دکھادوں۔‘‘


’’دکھائیے!‘‘ دیوی جی نے کہا۔ شرماجی نے ایک جلتی ہوئی نگاہ شریمتی جی پر ڈالی اور تھوکنے کے بہانے نیچے بازار میں جاکھڑے ہوئے۔ وہ ابھی کھانس ہی رہے تھے کہ ان کے کان میں قصبہ کے چمار بہاری کی آواز آئی۔ خاوند اور بیوی ایک منیاری کی دکان پر کھڑے جھگڑ رہے تھے۔ بیوی کہہ رہی تھی، ’’ہم گریب مجور ٹھہرے۔ ہم اتنے پیسے نہیں کھرچ سکتے۔‘‘ پنڈت جی نے دیکھا۔ وہ سستی جاپانی بنیان اٹھا رہی تھی۔


’’نہیں، میں یہ بدیسی مال نہ کھریدنے دوں گا۔‘‘ بہاری نے بنیان چھینتے ہوئے کہا، ’’کسی انگریج کو دیکھو، سستی ہندوستانی چیزیں کھریدنےکے بدلے مہنگی ولایتی چیزیں کھریدے گا۔‘‘


ویسی بنیان ان دنوں پانچ آنے کو آتی تھی۔ بہاری نے پانچ آنے دوکاندارکے سامنے پھینک دیے اور بنیان اٹھا لی۔ بیوی نے کہا، ’’میں اس بنیان کو انگ نہ لگاؤں گی۔ پانچ آنے میں تو دھنوا کے دو کرتے سل جاتے ہیں۔‘‘


’’تم نے اپنے قصبہ کے لیڈر پانڈے بے چین شرما کی باتیں نہیں سنیں۔ کہتے تھے، ’’سارے ملک اپنے اپنے دیس کی چیزیں کھریدتے ہیں۔ پھر ہم کیوں بدیسی مال کھریدیں۔‘‘ شرماجی ذرا ایک طرف ہٹ گئے۔ اس چمار کے سامنے ہوتے ہوئے انہیں شرم آئی۔ بہاری اپنی بیوی کو سمجھاتا ہوا چلا گیا۔ سب وہی دلیلیں تھیں جو انہوں نے کل جلسے میں دی تھیں۔ ایک لمبی سانس چھوڑ کر انہوں نے دوکان کی طرف دیکھا۔ دوکاندار نے کہا، ’’یہ سب دو سو کا ہوا۔‘‘ اور بل بنانے لگا۔


ان کا جی چاہا سب اٹھا کر رکھ دیں اور سودیشی کپڑا خریدلیں لیکن دوسرے لمحہ نوٹوں کا بنڈل وہیں سے انہوں نے بیوی کی طرف پھینک دیا۔ اس دن سے شرما جی نے سیاسی تحریک میں سرگرمی سے حصہ لینا ترک کردیا اور اپنے کمرے میں بند ہو کر ’’عورت کی نفسیات‘‘ پر ایک مستند کتاب لکھنے میں مصروف ہوگئے۔