لافٹر شو
آخر سرکار کو چونکنا ہی پڑا۔
بدعنوانی، ملاوٹ، کالا بازاری اور کمر توڑ مہنگائی کے سبب ملک کی اقتصادی صورتِ حال انتہائی نازک ہوگئی تھی۔ غریبی، بھکمری اور فاقوں نے عوام کو زندگی سے بیزار کردیا تھا۔لوگوں کے چہروں سے زندگی کی چمک دمک ختم ہوتی جارہی تھی۔ دلوں میں جینے کی امنگ باقی نہ رہی تھی۔ خود کشی کی وارداتوں میں اچانک اضافہ ہوگیا تھا۔ ملک کے بعض علاقوں میں قحط اور سیلابوں نے الگ قیامت مچا رکھی تھی۔
ملک اور قوم کی روز افزوں بگڑتی حالت دیکھ کر سرکار کو زبردست فکر لاحق ہوگئی۔ آخر جب حکومت ملک سے بھکمری، مہنگائی، کالا بازاری اور رشوت خوری پر قابو پانے میں ناکام ہوگئی تو اس نے ملک کی مختلف پارٹیوں کے لیڈروں، سماجی تنظیموں کے سربراہوں اور بڑے بڑے سرکاری اداروں کے اعلیٰ عہدیداروں کی ایک خصوصی میٹنگ طلب کی تاکہ سب مل کر عوام میں پھیلی اس مایوسی اور شکستہ دلی کو دور کرنے کیلئے کسی متبادل تجویز پر غور کریں۔
اس میٹنگ میں اپوزیشن پارٹی کے لیڈروں نے حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ انتظامیہ کو آڑے ہاتھوں لیا۔ سرکار کو منافع خوروں کی ساجھے دار، رشوت خوروں کی سرپرست اور عوام دشمن کہا۔ حکومت کے نمائندے ان دشنام طرازیوں اور الزامات کو بڑی خندہ پیشانی سے سنتے رہے، آخر میں حکومت کے ترجمان نے کھڑے ہوکر کہا۔’’ ہم اپوزیشن کی تمام بہتان تراشیوں اور الزامات کے جواب میں صرف اتنا کہتے ہیں کہ اپوزیشن ان تماش بینوں کی مانند ہے جو میدان سے باہر محفوظ پویلین (Pavillion)سے کھیل کا نظارہ کرتے ہیں۔ کھیل کی عملی مشکلات کا صحیح اندازہ تو میدان میں کھیلنے والے کھلاڑیوں ہی کو ہوسکتا ہے۔‘‘
اس پر اپوزیشن کے ممبر بہت برہم ہوئے اور انہوں نے حکومت سے فوری استعفیٰ کا مطالبہ کرڈالا مگر حکومت ایسی باتوں کو کب خاطر میں لاتی تھی۔ حکومت کے ترجمان نے نہایت پرسکون لہجے میں کہا۔ ’’ حکومت قوم کے سفینے کی ناخدا ہے۔ ایسے کڑے وقت میں جبکہ قوم کا بیڑہ بیچ منجدھار میں ہو، ہم اپنی قوم سے الگ نہیں ہوسکتے۔‘‘ اپوزیشن کے کسی منچلے نے پیچھے سے فقرہ کسا۔’’ ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے ۔‘‘ ایک زبردست قہقہہ پڑا مگر حکومت کا ترجمان بہت ہی بولڈ فیسڈ (Bold Faced)یعنی گرگ باراں دیدہ تھا۔ اس نے اسی شانت لہجے میں اپنی بات جاری رکھی۔’’ ساتھیو! جس طرح آپ لوگ قہقہہ لگا رہے ہیں، عوام کو ایسے قہقہے لگائے ہوئے ایک عرصہ ہوگیا۔ سیلاب اور قحط، بھکمری اور فاقوں نے لوگوں کو ادھ موا کردیا ہے۔ گرانی اور رشوت خوری نے ان کی کمریں جھکا دی ہیں۔ ان کے چہروں کی بشاشت ختم ہوگئی ہے اور ہونٹوں کی ہنسی چھن گئی ہے۔ دوستو! کوئی ترکیب کرو کہ ان کے چہروں کی تازگی، ان کی ہنسی اور قہقہے لوٹ آئیں۔ سیلاب اور قحط پر ہمارا زور نہیں۔ گرانی اور چور بازاری کو ختم کرنے کی ساری ترکیبیں آزمائی جاچکیں۔ ہم نے اپنے طور پر وہ سب کرڈالا جو ہمیں کرنا چاہیے یا جو ہم کرسکتے تھے مگر افسوس کہ بے ایمانی اور بد عنوانی کا زہر ہماری نسوں میں بہت گہرائی تک سرایت کرچکا ہے۔ اسے آسانی سے زائل نہیں کیا جاسکتا۔ دیکھئے سچائی کا اعتراف کرنے میں ہمیں کوئی شرم نہیں کیونکہ سچائی کو قبول کرنا ہی ہمارا راج دھرم ہے۔ ہمیں اس بات کا اعتراف ہے کہ ہم لوگوں کو سستا اناج مہیا نہیں کرسکتے، اشیا کے دام گھٹا نہیں سکتے، لوگوں کو مرنے سے بچا نہیں سکتے مگر ایک متبادل تجویر حکومت کے پاس ہے۔ ہم اس پر عمل کرسکتے ہیں۔اصل میں اس پر غور کرنے کے لیے ہی آپ سب لوگوں کو زحمت دی گئی ہے۔ حکومت آپ کے تعاون کے بغیر اس پر عمل نہیں کرسکتی۔‘‘
’تعاون‘ کا لفظ سن کر اپوزیشن کے ممبران چونکے۔ ایک نے پوچھا۔’’کیسا تعاون؟‘‘
تب حکومت کے ترجمان نے اپنے لہجے کو مزید سنجیدہ بناتے ہوئے کہا۔’’ ساتھیو! مسئلہ یہ ہے کہ لوگ ایک مدّت سے ہنسنا مسکرانا بھول گئے ہیں۔ اگرچہ ہم انہیں اناج اور پانی کی سہولتیں بہم پہنچا نہیں سکتے لیکن انہیں ہنسا تو سکتے ہیں۔ آپ نے سنا ہوگا کہ ’ہنسی علاجِ غم ہے‘ بس کچھ ایسا انتظام کیا جائے کہ لوگ ہنسیں، خوب ہنسیں، بار بار ہنسیں تاکہ مرجھائی ہوئی زندگیوں میں چند لمحوں کے لیے ہی سہی تازگی کی لہر دوڑ جائے۔ اس مہم کو چلانے کے لیے آپ سب لوگوں کے تعاون کی ہمیں ضرورت ہے۔‘‘
پہلے تو اس عجیب و غریب تجویز پر خوب گرما گرم بحث ہوئی مگر کئی گھنٹوں کی بحث کے بعد نتیجہ یہی نکلا کہ عوام کی مشکلات کا اس کے سوا کوئی دوسرا حل ہو ہی نہیں سکتا۔ اپوزیشن بھی کوئی معقول تجویر پیش نہ کرسکی، لہٰذا اس نے صرف اتنا کیا کہ نہ تائید نہ تردید کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے اس پورے کانڈ میں غیر جانبدار رہنے کافیصلہ کیا۔
ادھر برسرِ اقتدار پارٹی نے طے کیا کہ اس کے تمام لیڈر اور منسٹر ملک کا دورہ کریں گے اور شہر شہر، قریہ قریہ گھوم کر عوامی جلسے منعقد کریں گے، ان جلسوں میں لیڈر اور منسٹر مزاحیہ تقریریں کریں گے، لطیفے سنائیں گے، نقلیں اتاریں گے، ضرورت پڑنے پر ناچیں گے، گائیں گے۔ غرضیکہ کسی نہ کسی صورت مایوس اور زندگی بیزار عوام کو ہنسانے کی کوشش کریں گے۔
تجویر منظور ہوگئی۔ ملک کے تمام بڑے بڑے لیڈر اور منسٹر اپنے اپنے انتخابی حلقوں میں پھیل گئے۔ عالیشان شامیانے لگائے گئے، جلسہ گاہوں کو جھاڑ فانوس اور جھنڈیوں سے سجایا گیا۔ نشست و برخاست کا معقول انتظام کیا گیا۔ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ان جلسوں کی افادیت پرر وشنی ڈالی گئی۔ پوسٹرس اور پمفلیٹس چھپوائے گئے۔ کروڑوں روپئے پانی کی طرح بہا دیئے گئے۔ آخر بھوکے پیاسے لوگوں کو ہنسانا اور زندگی سے مایوس عوام کو دوبارہ جینے کی راہ پر لے آنا ہنسی کھیل تو نہیں تھا۔ چند روز بعد ہی اس کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہوا۔ لوگ گھنٹوں ان جلسہ گاہوں میں بیٹھے لیڈروں کی مزاحیہ تقریریں اور لطیفے، چٹکلے سنتے رہتے۔ یہ تقریریں اور لطیفے اس قدر دلچسپ ہوتے کہ لوگ بھوک پیاس کو بھول جاتے اور جی کھول کر ہنستے۔ سرکار خوش تھی کیونکہ عوام خوش تھے۔ لیڈر مسرور تھے کہ انہوں نے عوام کے دکھوں اور محرومیوں کا مداوا ڈھونڈ لیا۔
ایسے ہی ایک جلسے میں لوگ ہنستے ہنستے بے دم ہوگئے۔ دوچار کمزور بوڑھے تو اس قدر ہنسے کہ بے ہوش ہوگئے۔ رضا کاروں نے تُرت پھرت انہیں اٹھا کر باہر کھڑی ایمبولنس کار میں ڈال دیا۔ رضا کاری کے فرائض مقامی غنڈے بحسن وخوبی انجام دے رہے تھے۔ جلسے کے اختتام پر منسٹر نے فخر و مسرت سے سینہ پھُلا کر اپنے سیکریٹری سے کہا۔’’ دیکھا میری تقریر کا جادو۔ لوگ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگئے تھے۔‘‘
سیکریٹری نے کچھ سوچتے ہوئے دبے لہجے میں کہا۔’’مگر شریمان! آپ نے غور نہیں کیا! بظاہر لوگ قہقہے لگا رہے تھے مگر ان کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بھی گر رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا۔۔۔‘‘
’’چپ رہو احمق۔‘‘ منسٹر نے سیکریٹری کو ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا۔’’وہ خوشی کے آنسو تھے۔۔۔‘‘