لمحہ لمحہ دستک دے کر تڑپاتا ہے جانے کون

لمحہ لمحہ دستک دے کر تڑپاتا ہے جانے کون
رات گئے من دروازے پر آ جاتا ہے جانے کون


اپنی سانسوں کی خوشبو کو گھول کے میری سانسوں میں
میرا سونا جیون آنگن مہکاتا ہے جانے کون


اک انجانے ہاتھ کو اکثر شانے پر محسوس کروں
مجھ سے دور ہی رہ کر مجھ کو اپناتا ہے جانے کون


آنکھیں تو پربت کے پیچھے چھپتے چاند کو دیکھیں بس
اس منظر کی اوٹ میں لیکن شرماتا ہے جانے کون


دھوپ میں دشت تنہائی کی میرے جلتے ہونٹوں کو
لمس اپنے گلبرگ لب کا دے جاتا ہے جانے کون


اپنے پرائے چھوٹ گئے سب آس کھلونے ٹوٹ گئے
پھر بھی ضدی من بالک کو بہلاتا ہے جانے کون


یکساں تیور یکساں چہرے سب ہی دکھ دینے والے
لیکن اس بستی میں بھی اک سکھ داتا ہے جانے کون