لازمی تو نہیں ولی ہو جائے

لازمی تو نہیں ولی ہو جائے
آدمی کاش آدمی ہو جائے


کیوں نہ بدنام عاشقی ہو جائے
جب لگی دل کی دل لگی ہو جائے


روز کا ٹوٹنا بکھرنا کیوں
جو بھی ہونا ہے آج ہی ہو جائے


لمحہ لمحہ جیوں تجھے جاناں
تو اگر میری زندگی ہو جائے


میری آنکھیں چھلکنے لگتی ہیں
گر کوئی دوست اجنبی ہو جائے


گھر ہمارا دھواں دھواں سا ہے
کھول کھڑکی کہ روشنی ہو جائے


کون اعجازؔ پر کرے گا اسے
اپنے اندر اگر کمی ہو جائے