لازم ہے بلند آہ کی رایت نہ کرے تو
لازم ہے بلند آہ کی رایت نہ کرے تو
تسخیر اگر دل کی ولایت نہ کرے تو
آنکھوں کا بہے جانا سہا گریے پر افسوس
اب بھی اگر اس دل میں سرایت نہ کرے تو
میں موڑوں نہ منہ اس کی جفا سے پہ کروں کیا
اس وقت وفا پھر جو کفایت نہ کرے تو
جمعیت اغیار سے ڈرتے نہیں عاشق
پر خوف یہ ہے ان کی حمایت نہ کرے تو
اے قاصد اگر نامہ مرا چاک کرے یار
بہتر ہے کہ مجھ سے بھی روایت نہ کرے تو
پھر کہہ تو چمٹ کر نہ لیں ہم بوسہ سو کیوں کر
جب آپ سے گالی بھی عنایت نہ کرے تو
اے میر رضاؔ تجھ کو ابھی اس سے ملا دیں
گر رشک کی پھر ہم سے شکایت نہ کرے تو