لاکھ تیری ہی طرح کیوں نہ پرایا ہوتا

لاکھ تیری ہی طرح کیوں نہ پرایا ہوتا
تجھ سا کوئی تو مرے دھیان میں آیا ہوتا


وقت کے ساتھ تو چلتا ہے زمانہ سارا
وقت کے ساتھ مری طرح نبھایا ہوتا


میں ترے شہر میں تنہا ہوں نہ جانے کب سے
تو نہ ہوتا تری دیوار کا سایا ہوتا


کھلکھلاتے ہوئے لمحوں سے لپٹنے والو
روٹھنے والی رتوں کو بھی منایا ہوتا


یوں تو ہر ایک شبستاں ہے منور تجھ سے
کبھی میرا بھی کوئی خواب سجایا ہوتا


لے گیا ساتھ اڑا کر میری نیندیں پروازؔ
دھیان میں کاش نہ وہ شخص سمایا ہوتا