کیا کریں گلشن پہ جوبن زیر دام آیا تو کیا

کیا کریں گلشن پہ جوبن زیر دام آیا تو کیا
کیا توقع انقلاب نو نظام آیا تو کیا


اب یہ تاثیر محبت پر قصیدہ کیا ضرور
جذبۂ بے تابیٔ دل تھا جو کام آیا تو کیا


آنکھ سے دل کی طرف دوڑے وہ مے پیتے ہیں ہم
ہم وہ میکش ہیں کہ ساقی لے کے جام آیا تو کیا


ضعف اپنا توڑنے دیتا ہے زنجیریں کہیں
ہم میں دم کیا ہے جو وقت انتقام آیا تو کیا


میں سمجھتا ہوں اسے آغاز مستقبل فزا
آپ کہتے ہیں کوئی بالائے بام آیا تو کیا


اب وہ اظہار حقیقت کے لیے ڈرتے نہیں
اب وہ کہتے ہیں خط اس کا میرے نام آیا تو کیا


ہے تو نا احساں شناسی شادؔ لیکن کیا کروں
کام بن سکتا تھا یوں بھی کوئی کام آیا تو کیا