کیا کہوں کیا کیا گیا جب اپنا کاشانہ گیا

کیا کہوں کیا کیا گیا جب اپنا کاشانہ گیا
خم گیا ساقی گیا اور ہم سے مے خانہ گیا


ہو گئے کتنے ہی گم عقل و خرد کی راہ میں
منزل مقصود تک تو صرف دیوانہ گیا


گوشۂ تہذیب میں بھی گھات میں صیاد ہے
اب کبھی کا فرق آبادی و ویرانہ گیا


آج کی اس زندگی کے تیز رو طوفان میں
وقت ذکر ساغر و مینا و پیمانہ گیا


جیت لے قلب و جگر قدرت کا اب وہ وقت ہے
اب صنم کے جیتنے کا لطف افسانہ گیا


زندگی نے اب تراشے نو بتان دل ربا
وہ پرانا طرز سجدہ اور بت خانہ گیا


ہم زمانے کے رخر و فتار کی باتیں کریں
اب وہ لطف گرمیٔ رفتار جانانا گیا


آہن و تیشہ کی ہے جھنکار نغمہ وقت کا
ہو گیا خاموش مطرب شعر رندانہ گیا


خیر مقدم ہم نئے دل سے کریں اب اے حبیبؔ
رات گزری شمع رخصت اور پروانہ گیا