کیا ہوا جو حیات فانی ہے

کیا ہوا جو حیات فانی ہے
غم کا لمحہ تو جاودانی ہے


زندگانی بحال رکھنے کو
سائے پینے ہیں دھوپ کھانی ہے


کوئی چومے کہ میری آنکھوں میں
جو صحیفہ ہے آسمانی ہے


لوگ روئے لپٹ کے سایوں سے
قحط انساں کی یہ نشانی ہے


حملہ آور بدلتے رہتے ہیں
بستی لیکن وہی پرانی ہے


دل بھی اپنا نہیں یہاں انجمؔ
یہ پرندہ بھی لا مکانی ہے