کیا دل ہے اگر جلوہ گہہ یار نہ ہووے

کیا دل ہے اگر جلوہ گہہ یار نہ ہووے
ہے طور سے کیا کام جو دیدار نہ ہووے


کچھ رنگ نہیں نغمہ و آہنگ میں اس کے
بلبل جو بہاراں میں گرفتار نہ ہووے


دل جل جو گیا خوب ہوا سوختہ بہتر
وہ جنس کوئی جس کا خریدار نہ ہووے


شمشاد کو دیوے ہے قضا وار کے تجھ پر
جو جامہ ترے قد پہ سزا وار نہ ہووے


نیں باغ محبت میں یقیںؔ اس کو کہیں جا
جس دل میں کہ داغوں ستی گلزار نہ ہووے