کیا چلے کوچۂ جاناں کی ہوا میرے ساتھ

کیا چلے کوچۂ جاناں کی ہوا میرے ساتھ
روز آ لگتا ہے اک دشت نیا میرے ساتھ


ایک زمانہ ہے یہاں دست و گریباں مجھ سے
تو نے کیا دامن دل باندھ لیا میرے ساتھ


گھر کے آنگن سے پرندے بھی پرے رہتے ہیں
جب سے رہتا ہے کوئی دوست خفا میرے ساتھ


روز اول سے ہوں میں سبز محبت کا اسیر
‎سایہ افگن ہے درختوں کی دعا میرے ساتھ


کچھ مرا عہد بھی قاتل ہے تو کچھ بحر جنوں
زندگی رکھتی ہے اک حشر بپا میرے ساتھ


در بدر ہو کے بھی ہٹتا نہیں رستے سے فقیر
معجزے کرتی ہے وہ گردش پا میرے ساتھ


بات کرتا ہے صحیفوں میں کوئی اور سعیدؔ
پیش آتا ہے کوئی اور خدا میرے ساتھ