اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستی

اسرائیل ایک نسل پرست ریاست ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی ادارے نے حال ہی میں شایع کی گئی اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں یہ لکھا ہے۔ 

فلسطین اور اسرائیل کا تنازعہ ایک ایسا معاملہ ہے جو گذشتہ کئی دہائیوں سے جوں کا توں برقرار ہے اور عالمی حقوق کی تنظیمیں ہزارہا کوششوں کے باوجو بھی اس کا حل نہیں نکال سکی ہیں۔

مغربی ایشیا میں واقع ملک اسرائیل دنیا کا واحد یہود اکثریتی ملک ہے اور دنیا کی 43ویں بڑی معیشت کا حامل ہے۔ویکی پیڈیا کے مطابق  اسرائیل کو معیار زندگی کے اعتبار سےایشیا میں تیسرا نمبر حاصل ہے۔ لیکن جب بات آتی ہے فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں بسنے والے شہریوں کے حقوق کی تو اسی اسرائیل کا گھناؤنا روپ سامنے آتا ہےکہ کس طرح اس ترقی یافتہ مملکت نے فلسطینی شہریوں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا ہے۔ فلسطین پر اسرائیل کے مظالم کے تمام حالات کا علم ایمنسٹی انٹرنیشنل(انسانی حقوق کا عالمی ادارہ) کی اس رپورٹ سے ہوتا ہے جو اس نے یکم فروری ٢٠٢٢ء کو جاری کی، یہ رپورٹ دو سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے اور چار برس کی تحقیقات کے بعد مرتب کی گئی ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ، ”اسرائیلی ریاست نے جس   ”ظلم اور تسلط کے نظام“  کے تحت فلسطینیوں پر حکومت کی ہے وہ   ”اپرتھائیڈ“  یعنی نسل پرستی کی بنیاد پر تفریق برتنے کی بین الاقوامی تعریف پر پورا اترتا ہے۔“

یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا  جب١٩٢٠ء میں فلسطین کے علاقے پر برطانیہ نے قبضہ کرلیا  اور یہاں موجود یہود اقلیت اور عرب اکثریت کے درمیان جھگڑے شروع ہوگئے۔ برطانیہ کی بہت کوششوں کے بعد بھی جب یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو اس نے فلسطین کو دو حصوں (عرب اور اسرائیل) میں تقسیم کرنے کا ارادہ کیاجب کہ یرو شلم(بیت المقدس) کو ایک بین الاقوامی شہر کے طور پر رکھنے کا فیصلہ کیا اور اسے کسی ریاست میں شامل نہیں کیا گیا۔ اسرائیلیوں نے اسے تسلیم کرلیا لیکن عربوں نے مسترد کردیا۔ آخر کار برطانیہ نے اس مسئلے کو درمیان میں چھوڑ کر ہی ملک چھوڑ دیا اور یہیں سے عربوں اور اسرائیل کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ عرب فلسطینیوں نے دیگر عرب ممالک(مصر، اردن، عراق اور شام) کو ساتھ ملاکر اسرائیل پر حملے شروع کردیے۔ اردن نے جس حصے پر حملہ کیا اسے جنوبی اردن(غرب اردن) کہا جاتا ہے۔ غزہ کی پٹی پر مصر نے قبضہ کرلیا اور مشرقی بیت المقدس بھی اردن افواج نے حاصل کرلیا جب کہ بیت المقدس کے مغربی حصے پر اسرائیل قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا۔ اس طرح جنگوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلا۔ اس جنگ کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینیوں کوان کے گھروں سے نکال دیا گیا اور انھیں اپنی جان بچانے کےلیے بھاگنا پڑا۔

 ١٩٦٧ء میں دوبارہ جنگ شروع ہوگئی۔ اس دفعہ اسرائیل کا پلڑا بھاری رہا اور اس نےمشرقی بیت المقدس، جنوب اردن، مصر میں آبنائے سینا، غزہ کی پٹی اور شام میں گولان کی پہاڑیوں کو بھی قبضے میں لے لیا۔ اس علاقے میں رہنے والے بے شمار پناہ گزین فلسطینی اور ان کی نسلوں پر دامنِ زندگی کو تنگ کردیا گیا۔ اسرائیل نے انھیں اپنے گھروں کو لوٹنے کی اجازت نہیں دی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح ان کی یہودی ریاست کو خطرہ ہوسکتا ہے۔

اسرائیل اب بھی جنوب اردن اور بیت المقدس پر قابض ہے جب کہ اس نے غزہ کی پٹی سے اپنی فوجیں نکال لی ہیں(مگر اقوام متحدہ اسے اب بھی مقبوضہ علاقہ مانتا ہے)۔ 

بی بی سی اردو  کی رپورٹ کے مطابق:  مشرقی بیت المقدس، غزہ کی پٹی اور غربِ(جنوب) اردن میں رہنے والے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان تناؤ ہمیشہ ہی رہتا ہے۔ غزہ میں فلسطینی عسکریت پسند گروہ حماس برسراقتدار ہے جس نے اسرائیل سے کئی مرتبہ جنگ کی ہے۔ اسرائیل اور مصر سختی سے غزہ کی سرحدوں کی نگرانی کرتے ہیں تاکہ حماس تک ہتھیار نہ پہنچیں۔ غزہ اور غربِ اردن میں رہنے والے فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی پابندیاں اور کارروائیاں ان کی مشکلات میں اضافہ کرتی ہیں۔

اسرائیل کی کل آبادی94لاکھ ہے جس کا 20 فیصد حصہ عربوں پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ چوبیس لاکھ فلسطینی جنوب اردن اور مشرقی یروشلم میں رہتے ہیں اس کے علاوہ انیس لاکھ فلسطینی غزہ کی پٹی میں رہتے ہیں۔ جنوب اردن اور مشرقی یروشلم میں قائم کی جانے والی 140 بستیوں میں چھ لاکھ یہودی بستے ہیں۔ عالمی برادری کی اکثریت ان یہودی بستیوں کو غیر قانونی تصور کرتی ہے جب کہ اسرائیل عالمی برادری کی رائے کو تسلیم نہیں کرتا۔

اسرائیل کے مطابق اس ریاست میں سرکاری طور پر تمام اسرائیلی شہریوں کو مذہب و نسل کے امتیاز کے بغیر برابر کا شہری تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن ایمنسٹی انٹرنیشنل کی شایع کی گئی رپورٹ کے مطابق اسرائیل فلسطینوں کے ساتھ غیر یہودی نسل کے طور پر برتاؤ کرتا ہے اور انھیں کم تر اور حقیر سمجھا جاتا ہے۔

اس رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل قوانین، پالیسوں اور ضوابط کے ذریعے نسلی امتیاز کی ایک ایسی مربوط پالیسی پر عمل کررہاہے جس کا مقصد فلسطینیوں کو اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں برابری کے حقوق سے محروم رکھنا ہے۔ اس کا مقصد فلسطینی لوگوں کو دبانا اور ان پر غلبہ حاصل کرنا ہے۔ 

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیل پر فلسطینیوں کے خلاف عام شہریوں سےالگ تھلگ رکھنےاور حقوق سے محروم رکھنے کا ایک ایسا نظام نافذ کرنے کا الزام لگایا ہے جو کہ انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہے۔ تنظیم نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف جبر اور تسلط کا نظام نافذ کرنے کے لیے اسرائیلی حکام کو جوابدہ ٹھہرانا چاہیے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ جو ریاستیں اسرائیل کا ساتھ دے رہی ہیں اور اقوام متحدہ میں اسے جوب دہی سے بچارہی ہیں وہ بین الاقوامی قانونی نظام کو نقصان پہنچارہی ہیں۔ 

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس رپورٹ کے لیے 'ہیومن رائٹس واچ' اور اسرائیلی حقوق کی تنظیم 'بی ٹی سلیم' جیسی دیگر معروف انسانی حقوق کے گروپوں کے ساتھ مل کر کا م کیا۔ اس میں اسرائیل پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ وہ ایک ''نسل پرست'' ریاست کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ 

فلسطینیوں سے متعلق اسرائیلی پالیسیاں نسل پرستی کے مترادف ہیں: ایمنسٹی انٹرنیشنل

ایمنٹسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں کہا گیا کہ فلسطینی آبادی کو ٹکڑوں میں بانٹنے کی اسرائیلی پالیسیی میں جبر اور ظلم کو بنیادی حیثیت حاصل ہے جب کہ اس پالیسی کے دوسرے اجزا میں فلسطینوں کو شہریت اور سکونت کا حق دینے سے انکار، نقل و حرکت پر پابندیاں اور بنیادی حقوق تک رسائی کو روکنا شامل ہیں۔

اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ اس نے اسرائیل میں بسنے والے فلسطینوں کے خلاف ایسے غیر انسانی اقدامات جن میں حراست، تشدد، غیر قانونی ہلاکتیں، شدید ضربات اور بنیادی آزادیوں پر قدغنوں کی شہادتیں جمع کی ہیں جن کا مقصد ایسے نظام کو برقرار رکھنا ہے جو انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل پرستی کے مترادف ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے واضح کیاکہ یہ کارروائیاں فلسطینی آبادی کے خلاف منظم اور وسیع پیمانے پر کیے جانے والے حملے کا حصہ ہیں، اور جبر اور تسلط کے نظام کو برقرار رکھنے کی علامت ہیں۔ اس لیے وہ نسل پرستی کے انسانیت کے خلاف جرم کی تشکیل کرتے ہیں۔

فلسطینی مظاہرین کا غیر قانونی قتل شاید اس بات کی سب سے واضح دلیل ہے کہ کس طرح اسرائیلی حکام جمود کو برقرار رکھنے کے لیے ممنوعہ کارروائیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ ٢٠١٨ء میں، غزہ میں فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد کے ساتھ ہفتہ وار احتجاج کرنا شروع کیا، جس میں پناہ گزینوں کی واپسی کے حق اور ناکہ بندی کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا۔ احتجاج شروع ہونے سے پہلے، سینئر اسرائیلی حکام نے خبردار کیا کہ دیوار کے قریب آنے والے فلسطینیوں کو گولی مار دی جائے گی۔ ٢٠١٩ء کے آخر تک اسرائیلی فورسز نے 46 بچوں سمیت ٢١٤ شہریوں کو قتل کیا تھا۔

اپنی رپورٹ میں دستاویزی فلسطینیوں کے منظم غیر قانونی قتل کی روشنی میں، ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اسرائیل پر ہتھیاروں کی جامع پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اس میں تمام ہتھیاروں اور گولہ بارود کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے آلات کاتعین کیا جانا چاہیے، ان ہزاروں فلسطینی شہریوں کو دیکھتے ہوئے جو اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں غیر قانونی طور پر مارے گئے ہیں۔ سلامتی کونسل کو نسل پرستی کے جرم میں سب سے زیادہ ملوث اسرائیلی اہلکاروں کے خلاف بھی ہدفی پابندیاں عائد کرنی چاہئیں، جیسے کہ اثاثے منجمد کرنا۔ 

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل مسز ایگنس کالامارڈ نے عالمی ایکشن کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ لاکھوں لوگوں کے خلاف نسل پرستانہ جبر پر مبنی اس نظام کا کوئی جواز نہیں اور اس کا سدباب ضروری ہے۔ عالمی برادری کو اسرائیل کینسل پرستی کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے انصاف کے حصول کے راستے ڈھونڈنے چاہیئں جو ابھی تک تلاش نہیں گئے ہیں۔ 

سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ معاملہ کبھی حل ہوسکے گا؟ کیا کبھی اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان پر امن مذاکرات ہوں گے؟آخر کب تک لاکھوں لوگ یونہی سسک سسک کر جیتے رہیں گے؟ یہ معاملہ اقوام متحدہ کی کارکردگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

 

متعلقہ عنوانات