کو بہ کو کب سے ہے اک صرصر غم آوارہ
کو بہ کو کب سے ہے اک صرصر غم آوارہ
اب کدھر جائیں ترے شہر میں ہم آوارہ
کیا فقیہان حرم کو یہ خبر ہے یارو
ہم کو رکھتے ہیں غزالان حرم آوارہ
سرخ رو عہد وفا سے نہ ہوا ہو فرہاد
بوئے خوں ہے جو سر خلوت جم آوارہ
ہم چلے آئے تو بت خانے پر کیا کیا گزری
برہمن سر بہ گریباں ہے صنم آوارہ
سرنگوں ہیں مرے فتراک غزل میں وہ غزال
جن کو رکھتی تھی کبھی لذت رم آوارہ
سرخئ خار مغیلاں کبھی ایسی تو نہ تھی
آج گزرے ہیں یہ کس راہ سے ہم آوارہ
زلف آوارہ اڑا لے گئی دل کو بھی سلیمؔ
ورنہ پہلے وہ جواں مرگ تھا کم آوارہ