کرۂ ارض کو تاریک بنا دینا تھا

کرۂ ارض کو تاریک بنا دینا تھا
ہجر کی شب میں ستاروں کو بجھا دینا تھا


کتنی دہشت ہے مرے شہر میں سناٹے کی
نخل آواز یہاں بھی تو لگا دینا تھا


تو کہ موجود اگر مثل ہوا صحن میں تھا
شجر جامد و ساکت کو ہلا دینا تھا


پر سکوں کب سے مرے دل کا ہے صحرائے سکوت
آ کے اس میں بھی کبھی حشر اٹھا دینا تھا


حسن کے منظر سفاک نظر آتے صاف
پردۂ خواب کو آنکھوں سے ہٹا دینا تھا


رنگ کچھ صبح قیامت کا الگ ہی ہوتا
چہرۂ مہر سے بھی رنگ اڑا دینا تھا