کفر میں بھی ہم رہے قسمت سے ایماں کی طرف

کفر میں بھی ہم رہے قسمت سے ایماں کی طرف
شکر ہے کعبہ بھی نکلا کوئے جاناں کی طرف


کچھ اسیران قفس کے بخت ہی برگشتہ ہیں
بوئے گل پھر پھر گئی الٹی گلستاں کی طرف


دیکھتے مر کر کسی پر لطف عمر جاوداں
کیوں گئے خضر و سکندر آب حیواں کی طرف


دیکھیے کیا گل کھلائے فصل گل آتی تو ہے
ہاتھ ابھی سے دوڑتے ہیں جیب و داماں کی طرف


رشک کہتا ہے کہ پونچھے ہوں گے اس سے اشک غیر
ہاتھ اٹھ کر رہ گیا سو بار داماں کی طرف