کچھ حساب اے ستم ایجاد تو کر

کچھ حساب اے ستم ایجاد تو کر
کس قدر ظلم کئے یاد تو کر


زندہ جا سکتے ہیں باہر کہ نہیں
دیکھ اسیروں کو اب آزاد تو کر


خاک کیوں چھان رہا ہے بتلا
تھا بھی دل پاس ترے یاد تو کر


ارے منہ ڈھانپ کے رونے والے
دم الٹ جائے گا فریاد تو کر


ہائے کیا ہوگا بہار آنے تک
قیدیٔ کنج قفس یاد تو کر


وہ تسلی ہی سہی اے صیاد
کچھ معین مری میعاد تو کر


ہے تنفر جو بتوں سے واعظ
صفت حسن خداداد تو کر


جا کبھی نجد کی جانب بھی عزیزؔ
روح مجنوں کو ذرا شاد تو کر