کوئی حد بھی ہے آخر امتحاں کی

کوئی حد بھی ہے آخر امتحاں کی
الٰہی خیر قلب ناتواں کی


یہ ہے اک مہر بے بال و پری پر
رہائی بھی رہائی ہے کہاں کی


خزاں کا وسوسہ ہے فصل گل میں
ضرورت ہے بہار بے خزاں کی


زمیں پر ہیں وہ کچھ مٹی کے پتلے
کہ جن میں رفعتیں ہیں آسماں کی