کسی در پہ جانے کو جی چاہتا ہے

کسی در پہ جانے کو جی چاہتا ہے
وفا آزمانے کو جی چاہتا ہے


اٹھایا تھا جس بزم سے ہم کو اک دن
وہیں پھر بھی جانے کو جی چاہتا ہے


ہوئے مندمل زخم دل میرے لیکن
نئے زخم کھانے کو جی چاہتا ہے


مآل محبت سمجھتا ہوں پھر بھی
کہیں دل لگانے کو جی چاہتا ہے


ہیں کیسے مزے کے ترے جھوٹے وعدے
کہ پھر دھوکہ کھانے کو جی چاہتا ہے


وہ پھر آج کچھ ہم سے روٹھے ہوئے ہیں
انہیں پھر منانے کو جی چاہتا ہے


ہے مدت سے سونی مرے دل کی محفل
تمہیں سے سجانے کو جی چاہتا ہے


جو روشن ہیں محفل میں عقل و خرد سے
وہ شمعیں بجھانے کو جی چاہتا ہے


جو سوئے ہوئے دل میں ہلچل مچا دے
وہ طوفاں اٹھانے کو جی چاہتا ہے


حبیبؔ آگ بھر دیں جو سینے میں سب کے
وہ نغمے سنانے کو جی چاہتا ہے