خوشی نے مجھ کو ٹھکرایا ہے درد و غم نے پالا ہے
خوشی نے مجھ کو ٹھکرایا ہے درد و غم نے پالا ہے
گلوں نے بے رخی کی ہے تو کانٹوں نے سنبھالا ہے
محبت میں خیال ساحل و منزل ہے نادانی
جو ان راہوں میں لٹ جائے وہی تقدیر والا ہے
جہاں بھر کر متاع لالہ و گل بخشنے والو
ہمارے دل کا کانٹا بھی کبھی تم نے نکالا ہے
کناروں سے مجھے اے ناخدا تم دور ہی رکھنا
وہاں لے کر چلو طوفاں جہاں سے اٹھنے والا ہے
چراغاں کر کے دل بہلا رہے ہو کیا جہاں والو
اندھیرا لاکھ روشن ہو اجالا پھر اجالا ہے
نشیمن ہی کے لٹ جانے کا غم ہوتا تو کیا غم تھا
یہاں تو بیچنے والوں نے گلشن بیچ ڈالا ہے
علیؔ وہ زیست کیا جو رات بھر میں ختم ہو جائے
چراغوں کی ہنسی اڑتی ہے تڑکا ہونے والا ہے