خوشبو ہے اور دھیما سا دکھ پھیلا ہے

خوشبو ہے اور دھیما سا دکھ پھیلا ہے
کون گیا ہے اب تک لان اکیلا ہے


کیوں آہٹ پر چونکوں میں کس کو دیکھوں
بے دستک ہی آیا جب وہ آیا ہے


کھلی کتابیں سامنے رکھے بیٹھی ہوں
دھندلے دھندلے لفظوں میں اک چہرہ ہے


رات دریچے تک آ کر رک جاتی ہے
بند آنکھوں میں اس کا چہرہ رہتا ہے


آوازوں سے خالی کرنیں پھیلی ہیں
خاموشی میں چاند بھی تنہا جلتا ہے


جانے کون سے رستے پہ کھو جائے وہ
شہر میں بھی آسیبوں کا ڈر رہتا ہے