خودی کو بھول کر میں نے کسے محبوب تھا جانا

خودی کو بھول کر میں نے کسے محبوب تھا جانا
محبت کے جو لائق ہے وہ ہستی میں نہ پہچانا


کہ جس کو عشق کہتے ہیں کوئی قابل نہیں اس کے
بھلا جانا تو بس عشق حقیقی کو بھلا جانا


کہیں فرہاد شیریں تھے کہیں لیلیٰ کہیں تھا قیس
انا الحق کیوں کہا منصور نے کوئی بھی نہ جانا


بھلا کر ذات وہ جس کو ہی ہے بس اختیار کن
فرعونی ذات کے لوگوں نے خود کو ہی خدا جانا


کدورت سے بھرے دل ہیں مگر دعوے محبت کے
سو ایسے بزدلوں کے دل کو نفرت کا قلعہ جانا


یہ ہنستے چہرے دھوکا ہیں یہ خوشیوں کی بناوٹ ہیں
شہر آباد دکھتے ہیں حقیقت میں ہے ویرانا


بہکنا اس کو کہتے ہیں تو ساقی اور دے مجھ کو
حق و باطل جو سمجھا دے بھلے ہو کیوں نہ مے خانہ


نفی کر ذات کی عاطر کہ سودا بھی نفے کا ہے
جو پایا وہ ہی افضل ہے جو کھویا وہ بھی پہچانا