خود سے محبت کی کمی کا مسئلہ

self love deficient disorder

سیلف لو ڈیفیشنٹ ڈس آرڈر انسانی ذہن کی وہ پیچیدگی ہے جس کے مختلف ادوار اور زاویے سمجھنے کے لئے ایک تکون کا سہارا لیا جاتا ہے۔

یہ ڈس آرڈر عموماً بچپن میں شروع ہوتا ہے جب محبت وشفقت کو مشروط بناتے ہوئے والدین اپنی  مرضی کے مطابق زندگی گزارنے پہ اولاد کو مجبور کرتے ہیں۔ ان کی خواہشات، پسند ناپسند، کیرئیر، شادی غرض کہ زندگی کے ہر موڑ پہ محبت کی چھتری کی آڑ لے کر رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔ پابندیاں، جانچ پڑتال، تنقید، سرزنش اور طعن وتشنیع کو محبت اور خیال رکھنے کا دوسرا نام سمجھا جاتا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ اس کا شکار زیادہ تر لڑکیاں بنتی ہیں کیونکہ ان کے ساتھ ان چاہی اولاد کا لاحقہ ہونے کی وجہ سے اس  طرزعمل میں کئی فیصد اضافہ ہو جاتا ہے۔ پدرسری نظام کی اقدار اور روایات اپنا کھیل کھیلتے ہوئے بچے کے دماغ میں ایسے بیج بو دیتی ہیں جہاں ان کی ذات کی ہر خوشی اردگرد والوں کی رضامندی اور خوشنودی پہ انحصار کرتی ہے۔ اس دور کو "attachment trauma "کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

اچھا بچہ وہ ہے جو ماں باپ کا ہر کہنا مانے۔ اچھی بچی وہ ہے جو سوال  و جواب نہ کرے۔ اچھا بچہ وہ ہے جو والدین کی پسند کے مضامین پڑھے اور ہمیشہ  درجہ اول میں پاس ہو۔اچھی بچی وہ ہے جو والدین کی خوشی کے لئے اپنی پسند قربان کرتے ہوئے ان کی مرضی سےپڑھے ، لکھے ، جیے ، مرے ، شادی کرے۔ ایسا بچپن ،جو:" کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی نگاہ سے" ،کی تصویر ہو۔

بہت سے افراد کا یہ دور شادی کے بعد شروع ہوتا ہے جہاں وہ اس ذہنی و جسمانی اذیت کو جھیلتے ہوئے شوہر اور سسرال کی خواہشات، ترجیحات اور ضروریات کا بوجھ اٹھاتے ہیں جو ان پر یہ وزن لادنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔

"ہمارے گھر کی بہو باہر نہیں جا سکتی۔ میری بیوی ایسا لباس نہیں پہن سکتی۔ بہو کا فرض ہے کہ ساس سسر کے سامنے سر جھکائے۔ بیوی کا فرض ہے کہ شوہر کی ہر جائز  و ناجائز  بات یا حرکت برداشت کرے"

ان اذیت ناک واقعات سے نبرد آزما فرد کا یہ دور شرمندگی، بے چارگی اور بے یقینی کا ہوتا ہے۔ ایک ایسی کیفیت جب ان کا اعتماد اپنے آپ سے اٹھ جاتا ہے۔ یقین، خوشی اور اعتماد تب حاصل ہوتا ہے جب وہ اپنے نظریات اور خواہشات کو نظر انداز کرتے ہوئے دوسروں کی مدد کرتا رہے۔ احتجاج کی یا تو ہمت نہ کرےاور اگر احتجاج کچل دیا جائے تو کچھ بھی نہ کر سکے۔ اس صورت حال کو “core shame” کہتے ہیں۔

دوسروں سے ایسی بے لوث محبت جس میں اس فرد کی موجودگی کہیں دکھائی نہ دیتی ہو، ایک ایسی تنہائی کو جنم دیتی ہے، جس کی ہر پرت میں دکھ اور اذیت گندھا ہوتا ہے۔

یہ ذہنی تنہائی محبت کرنے والے کو یقین دلاتی ہے کہ جواباً اس کی ذات چاہے جانے کے قابل نہیں چاہے وہ آسمان سے تارے بھی توڑ لائے۔ اس کی ہستی اور اس کی احتیاجات دوسروں کے لئے اہم نہیں، اس کا وجود ان دیکھا اور ان چاہا ہے۔ یہ درجہ

"pathological loneliness"

کہلاتا ہے۔

اپنی ہستی کو ہمیشہ یوں غیر اہم دیکھا جانا رگوں میں درد پھیلاتا اور ذات کو کرچیوں میں تقسیم کرتا ہے۔ اس درد کی شدت اپنے آپ کو کمزور اور کمتر سمجھتے فرد کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح اس زہریلے تعلق کو قائم رکھے، کیونکہ وہ تو اپنی ذات میں کچھ بھی نہیں۔

چاہے جانے اور بے تحاشا چاہے جانے کی خواہش ایک ایسا روگ بن جاتی ہے جس سے یہ فرد کبھی باہر ہی نہیں نکل پاتا۔ نہ ذہنی تنہائی کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے، نہ محبت کیے جانے کی خواہش ٹوٹتی ہے اور نہ ہی وہ اس حصار کو توڑ پاتا ہے جس میں اس کے پر کاٹ کر اسے قیدی بنا دیا گیا ہے۔ اس دور کو

"Co-dependency addiction"

کہا جاتا ہے۔

پدرسری نظام کی قیدی خواتین کی زندگی انہی ادوار میں گھومتی نظر آتی ہے۔ اپنے آپ کو مصنوعی دلاسے، جھوٹا اطمینان، اور ایک دن اس رشتے میں اپنے آپ کو منوائے جانے کا عزم! جو کسی کا بھری جوانی میں ٹوٹ جاتا ہے اور کسی کا زندگی کی آخری سیڑھی پہ پہنچتے ہوئے۔

سیلف لو ڈیفیشنٹ ڈس آرڈر، پدرسری نظام کا عورت کے لئے ایک ایسا تحفہ ہے جس کی زد میں  نہ جانے کتنی عورتیں روز جیتی اور روز مرتی ہیں۔

اے  ہم نفسو، اپنے آپ سے محبت کرنا سیکھو! تمہارا اپنے آپ پر حق ہے۔