کھیل سب رسم کا تھا رسم نبھائی نہ گئی

کھیل سب رسم کا تھا رسم نبھائی نہ گئی
زندگی ہم سے ترے طور بتائی نہ گئی


ایک دن آپ سے مل بیٹھنے کا موقع لگا
اور پھر اپنی بھی کوئی تھا بھی پائی نہ گئی


ایک چہرا تھا جسے حسن عطا کر نہ سکے
ایک کوچہ تھا جہاں خاک اڑائی نہ گئی


رنگ کیسا یہ چڑھا ہے جو اترتا ہی نہیں
تیرے لوٹ آنے سے بھی تیری جدائی نہ گئی


اس نے ہر بات پہ کمتر ہی دکھایا ہم کو
ہم سے پر دل سے کوئی بات لگائی نہ گئی