خیرالدین باربروسا کا مختصر تعارف

خیر الدین پاشا باربروسا  ایک ترک جہاز ران تھا  ۔ جو بعد ازاں سلطنت عثمانیہ کی بحری افواج کا سربراہ مقرر ہوا اور کئی دہائیوں تک بحیرہ روم میں اپنی طاقت کی دھاک بٹھائے رکھی۔ وہ یونان کے جزیرہ مڈیلی (موجودہ لزبوس) میں پیدا ہوا۔

جبکہ اس کا انتقال استنبول میں ہوا۔ اس کا اصل نام خضر یعقوب اوغلو (خضر ابن یعقوب) تھا۔ خیر الدین کا لقب اسے عظیم عثمانی فرمانروا سلطان سلیمان قانونی نے دیا تھا۔ باربروسا کا نام اس نے اپنے بڑے بھائی بابا عروج (عروج رئیس) سے حاصل کیا تھا جو الجزائر میں ہسپانویوں کے ہاتھوں شہید ہوا تھا۔خضر چار بھائیوں اسحق، عروج اور الیاس میں سے ایک تھےجو 1470ء کی دہائی میں یعقوب آغا اور ان کی مسیحی بیوی قطرینہ کے ہاں پیدا ہوا۔ چند مورخین یعقوب کو ایک سپاہی قرار دیتے ہیں جبکہ چند کا کہنا ہے کہ وہ سالونیکا کے قریب وردار کے شہر میں عثمانی فوج ینی چری کا حصہ تھا۔ ابتدا میں چاروں بھائیوں مشرقی بحیرہ روم میں تاجر اور جہازراں  تھے ، جہاں ان کا ٹکراؤ اکثر و بیشتر جزیرہ رہوڈس پر موجود سینٹ جانز کے نائٹس سے ہوتا تھا۔ ان جھڑپوں میں الیاس قتل ہوا جبکہ عروج کو گرفتار کر لیا گیا اور رہوڈز میں قید میں رکھنے کے بعد بطور غلام فروخت کر دیا گیا۔ وہ غلامی کی زندگی سے فرار حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ور پہلے اٹلی اوربعد ازاں مصر پہنچا۔ جہاں وہ مملوک سلطان قانصوہ غوری سے ملاقات میں کامیاب ہو گیا جس نے عروج کو مسیحیوں کے زیر قبضہ بحیرہ روم کے جزائر پر حملے کے لیے ایک جہاز عطا کیا۔

1505ء تک عروج نے تین مزید جہاز حاصل کرلئے اور جربا کے جزیرے پر چھاؤنی قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا جس کی بدولت بحیرہ روم میں اس کارروائیوں کادائرہ مغرب کی جانب منتقل ہو گیا۔ 1504ء سے 1510ء کے دوران میں وہ اس وقت مشہور ہوا جب اس نے سقوط غرناطہ کے بعد مسیحیوں کے  اسپین سے نکالے گئے مسلمانوں کو شمالی افریقہ پہنچایا۔ ہسپانوی مسلمانوں سے اس کا سلوک اتنا اچھا تھا کہ وہ ان میں بابا عروج کے نام سے مشہور ہو گیا اور یہی بابا عروج اسپین، اٹلی اور فرانس میں بگڑ کر باربروسا بن گیا۔ الجزیرہ کے لیے اسپین سے بچاؤ کاواحد راستہ عثمانی سلطنت میں ضم ہوجانا تھا اس لیے باربروسا نے الجزیرہ کو عثمانی سلطان کے سامنے پیش کر دیا۔ سلطان نے الجزیرہ کو عثمانی سنجاق (صوبہ) کے طور پر منظور کر لیا اور عروج کو ”پاشائے الجزیرہ“ اور ”مغربی بحیرہ روم میں بحری گورنر“ متعین کر دیا۔ 1516ء میں عروج   الجزیرہ پر قبضہ کر کے بادشاہ بن بیٹھا۔ وہ دیگر شہروں پر بھی قبضہ کرنا چاہتا تھا لیکن 1518ء میں مقامی رہنما کی مدد کے لیے آنے والی ہسپانوی افواج کے خلاف جنگ کے دوران میں اپنے بھائی اسحاق سمیت ہلاک ہو گیا۔ اس کی عمر 55 سال تھی۔بھائی کے مارے جانے کے بعد خیر الدین نے اس کی پالیسی کو جاری رکھا اور اسپین سے مظلوم مسلمانوں کو شمالی افریقہ لاتا رہا جس کی بدولت اسے اسپین کے مخالف مسلمانوں کی بڑی تعداد کی حمایت حاصل ہو گئی۔ اس نے 1519ء میں الجزیرہ پر قبضے کی کوشش کرنے والی اسپین اور اٹلی کی مشترکہ فوج کو شکست دی۔ 1529ء میں اس نے ایک ساحلی جزیرے پر ہسپانوی قلعے پر بھی قبضہ کر لیا۔ 1530ء میں اینڈریا ڈوریا نے بارباروس کو شکست دینے کے لیے حملے کی کوشش کی لیکن باربروسا کے بحری بیڑے کی آمد سے قبل ہی ڈر کر فرار ہو گیا۔

1532ء میں سلیمان اعظم نے عثمانی بحری بیڑے کی تشکیل کے لیے باربروسا کو استنبول طلب کیا۔ سلطان نے باربروسا کو بحیرہ روم کا ایڈمرل پاشا (ایڈمرل ان چیف) اور شمالی افریقہ کا بیلربے (کمانڈر ان چیف) مقرر کیا اور بحری بیڑے کی کمان اس کے سپرد کردی۔ باربروسا نے سب سے پہلے جنوبی اٹلی کے ساحلوں پر حملے کیے اور 1534ء میں تیونس پر قبضہ کر لیا اور حفصی سلطان مولائے حسن فرار ہو گیا۔ مولائے حسن نے اپنی سلطنت دوبارہ حاصل کرنے کے لیے چارلس پنجم سے مدد طلب کی اور اسپین اور فرانس کی ایک عظیم فوج نے 1535ء میں بونے اور مہدیہ سمیت تیونس باربروسا سے چھین لیا۔

1537ء میں لطفی پاشا اور باربروسا نے جزائر آیونین اور جنوبی اٹلی کے خلاف ایک زبردست عثمانی فوج کی قیادت کی اور باربروسا نے سلطنت وینس سے کورفو چھین لیا جس پر فروری 1538ء میں پاپ پال سوم نے عثمانیوں کے خلاف اتحاد تشکیل دیا جس میں پاپائے روم، اسپین، رومی سلطنت، وینس اور مالٹا کی افواج شامل تھیں لیکن ستمبر 1538ء میں باربروسا نے جنگ پریویزا میں اس مشترکہ مسیحی فوج کو زبردست شکست دی جس کی قیادت اینڈریا ڈوریا کے ہاتھوں میں تھی۔ اس فتح کی بدولت بحیرہ روم میں اگلے 33سال (1571ء میں جنگ لپانٹو تک) تک ترکوں کو مکمل برتری حاصل رہی۔اگلے سال باربروسا نے وینیٹیئنس سے کاسل نووو چھین لیا جسے انہوں نے جنگ پریویزا کے بعد ترکوں سے حاصل کر لیا تھا۔ اس نے بحیرہ آیونین اور ایجیئن میں مسیحیوں کے باقی ماندہ ٹھکانوں کا بھی خاتمہ کر دیا۔ بالآخر وینس نے امن معاہدے کی درخواست کی جس کے بعد 1540ء میں سلطان سلیمان قانونی اور وینس کے درمیان میں امن معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اکتوبر 1541ء میں چارلس پنجم نے الجزیرہ کا محاصرہ کرکے مغربی بحیرہ روم میں ہسپانوی اور مسیحی بحری بیڑے کو لاحق خطرات کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی لیکن ایک زبردست سمندری طوفان کے باعث اسے ساحل پراترنے میں شدید مشکلات پیش آئیں ۔

تاہم زمین پر لڑی گئی غیر فیصلہ کن جنگ کے بعد چارلس نے ناامید ہوکر فوج واپس بلالی۔1543ء میں باربروسا نے ایک عظیم بحری بیڑے کے ساتھ مغربی بحیرہ روم میں نئی مہمات کا آغاز کیا اور اٹلی اور اسپین کے جزائر اور ساحلی علاقوں پر حملے کیے۔ اس نے فرانسیسی ساحلی شہر نیس پر قبضہ کر لیا۔ اس نے اپنے بیڑے کے ہمراہ موسم سرما ٹولون میں گزارا اور اگلے موسم بہار میں اسپین اور اٹلی کے اتحادی بیڑے کو ایک مرتبہ پھر زبردست شکست دی اور ریاست ناپولی کے قلب تک حملے کئی۔ اس نے اطالوی شہر جینوا پر حملے کرنے کی دھمکی دی لیکن تین ہزار دوکات اور اپنے لیفٹیننٹ اور دوست تورگت رئیس کو رہا کرنے کے عوض حملہ سے باز رہا۔ تورگت 1540ء میں گرفتار ہونے کے بعد جینووا میں قید تھا اور ایک جہاز پر غلام کے طور پر کام کر رہا تھا۔ بعد ازاں اس نے جنوبی فرانس میں اسپین کے کئی حملوں کا بھرپور جواب دیا اور 1544ء میں چارلس پنجم اور سلیمان اعظم کے درمیان معاہدے کے بعد استنبول پہنچ گیا۔باربروسا 1544ء میں استنبول میں سبکدوش ہو گیا اور الجزیرہ میں اس کے صاحبزادے حسن پاشا کو جانشیں مقرر کیا گیا۔

سوانح حیات:

 اس نے اپنی سوانح حیات ”غزوات خیر الدین پاشا“ بھی تحریر کی جو ہاتھ سے لکھی گئی 5 جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس سوانح حیات کی جلدیں آج کل توپ کاپی محل اور جامعہ استنبول کے کتب خانے میں موجود ہیں۔

انتقال:

خیر الدین پاشا بارباروس کا انتقال 1546ء میں استنبول میں آبنائے باسفورس کے کنارے واقع اپنے محل میں ہوا۔ اس کا مزار استنبول میں ترک بحری عجائب خانے کے قریب موجود ہے۔ ترک بحریہ کے متعدد جہازوں کے نام اسی پررکھے گئے ہیں۔ آج بھی ترک بحریہ کا کوئی جہاز آبنائے باسفورس سے گذرتا ہے تو اس کے مقبرے کی طرف سلامی دیتا ہے۔ ترکی نے  اس عظیم ایڈمرل پہ ایک ڈرامہ بھی بنایا  ہے۔اس سے  پہلےہالی ووڈ نے  اس کو ایک برا انسان دکھانے کے لیے ایک انگریزی سیکوئیل فلم

Pirates of Caribbean

 بنائی تھی  جس میں باربروسا کو ایک قزاق کے روپ میں دکھایاگیا تھا۔ اس کا مقصد صرف مسلمانوں کی تاریخ کومسخ کرنا تھااور اسے ایک جوکر کےطور پر پیش کیا گیا تھا ۔