کھڑے ہوئے ہیں عزیزاں الگ طبیب الگ

کھڑے ہوئے ہیں عزیزاں الگ طبیب الگ
کہ ہونے والے ہیں ہم سب سے عنقریب الگ


ستون دار کی مانند جسم بڑھتے گئے
بدن سے ہو ہی نہ پائی کبھی صلیب الگ


گلاب ہم سے علاحدہ ہے اور بہت چپ ہے
خموشی بیٹھی ہے گلشن میں عندلیب الگ


الگ الگ کوئی تنہائی بانٹ جاتا ہے
کوئی بچھڑ کے الگ ہے کوئی قریب الگ


جمے ہوئے ہیں کہ پاؤں اکھاڑ دیں میرے
یہ بے ادب مرے افسر الگ ادیب الگ


فریدیؔ روٹھ گئے ہیں ہمارے سب شب و روز
ہمیں ستاتے ہیں دشمن الگ حبیب الگ