کاویری

تو اے کاویری ہے رشک رود نیل
تیری اک اک موج موج سلسبیل


پڑ رہا ہے تجھ پہ عکس جبرئیل
تجھ سے ہے سیراب گلزار خلیل


آج بھی حوران جنت بے شمار
دیکھ کر تجھ کو قطار اندر قطار


روز آتی ہیں نہانے کے لئے
رقص کا طوفاں اٹھانے کے لئے


نور کا دریا بہانے کے لئے
نغمۂ فردوس گانے کے لئے


خضر کو ہے آب حیواں پر غرور
فیض جاری ہے ترا نزدیک و دور


تیرا ہر قطرہ ہے بحر بیکراں
جس میں پنہاں ہیں ہزاروں ندیاں


تیرا نغمہ گا رہا ہے ہر کساں
جس سے پیہم رقص میں ہے آسماں


تیرے دم سے ہیں یہ سب گل کاریاں
لہلہاتی ہیں جو ساری کھیتیاں


بیل بوٹے اور ہر شاخ و شجر
گلشن ہستی کا ہر برگ و ثمر


بلبل و قمری و شاہیں بے خطر
سب پرندے اور چرندے بہرہ ور


مفلس و محتاج ہوں یا اہل زر
ظالم و مظلوم ہوں یا تاجور


سب پہ تیرا فیض یکساں ہے مدام
تیرے آگے ایک ہیں آقا غلام