کون سی جا ہے جہاں حسن کا شہرا نہ ہوا

کون سی جا ہے جہاں حسن کا شہرا نہ ہوا
عشق بیچارہ کہاں دہر میں رسوا نہ ہوا


عشق دریا ہے کوئی جس کا کنارا نہ ہوا
ناخدا کوئی نہیں کوئی سفینہ نہ ہوا


کیسے احساس ہو محرومیٔ قسمت کا اسے
لذت درد سے جو دل سے شناسا نہ ہوا


ہاتھ اٹھائے جو دعا کو تو تجھے ہی مانگا
یہ تو اللہ سے سودا ہوا سجدہ نہ ہوا


کیوں نہ انجام تمنا سے سنور جائے دل
عشق کی راہ میں کب خون تمنا نہ ہوا


ایک وہ ہیں جو تیری یاد میں رو لیتے ہیں
ہم کو اشکوں کا بھی اس غم میں سہارا نہ ہوا


بے رخی کا ہے گلا کیوں تجھے دلبر سے حبیبؔ
پیار کرنے کا تجھے خود ہی سلیقہ نہ ہوا